سیلاب میں بیوروکریسی اور فلاحی تنظیموں کا کردار 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جومصیبت زد ہ کو نجات دلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے مصائب سے ایک مصیبت سے آزاد کرے گا اور جوشخص اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا، اللہ تعالی اس کی حاجت پوری کرنے میں رہے گا۔پاکستان اس وقت مصیبت کی گھڑی میں ہے سیلاب کی تباہ کاریوں سے اربوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کے مطابق، پاکستان میں سیلاب سے ہونے والا نقصان 10 بلین ڈالر سے سے بھی زیادہ ہے ، لاکھوں لوگ گھر اور روزی روٹی سے محروم ہوں گئے ہیں جب کہ اہم سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں۔حکومت سیلاب کے نقصان کا تخمینہ لگا رہی ہے، سیلاب سے 1,300 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں، تازہ ترین تخمینہ ظاہر کرتا ہے کہ نقصان ابتدائی پیشن گوئی سے بھی بدتر ہو سکتا ہے۔ منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ حتمی تخمینے کا تعین کرنے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگیں گے جبکہ وہ تمام ممالک جنہوں نے گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈالا، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اب ہماری مدد کریں اور بحالی اور تعمیر نو میں شراکت دار بنیں۔ یہ سانحہ ہمارا اپنا نہیں ہے۔ یہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہے۔ اس نقصان کو چونکہ حکومت تنہا پوری نہیں کر سکتی تو ہمیشہ کی طرح پاکستان کی فلاح تنظیمیں ہی امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، ویسے تو بہت سی فلاحی تنظیمیں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے میدان میں اتریں ہیں لیکن الخدمت فاو¿نڈیشن ایک ایسی فلاحی تنظیم ہے جو ملک کے ہر اس کونے میں پہنچی ہے جہاں سیلاب کی وجہ سے لوگوں کی چھت چھن گئی، مویشی ہلاک ہوگئے اور فصلیں تباہ ہو گئی۔ الخدمت والوں نے لوگوں کو ٹینٹس کی صورت میں چھت فراہم کی، کھانے کیلئے خوراک اور پینے کیلئے صاف پانی فراہم کیا۔ الخدمت فاو¿نڈیشن پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس کے زیر انتظام پاکستان کے کئی علاقوں میں فلاحی ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ الخدمت فاو¿نڈیشن کا قیام 1990 ءمیں عمل میں آیا۔ الخدمت فاونڈیشن پاکستان اس وقت سات شعبہ جات میں کام کر رہی ہے۔ ان شعبہ جات میں تعلیم، صحت ، کفالت یتامٰی، صاف پانی ، مواخات ، سماجی خدمات اور آفات سے بچاو¿ کے شعبہ جات شامل ہیں۔اسی طرح سندس فاونڈیشن، سایہ فاونڈیشن،المرا فاونڈیشن، جے ڈی سی فاونڈیشن، الخبیب فاونڈیشن بھی مشکل کے اس وقت میں سیلاب زدگان کیلئے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ حکومت کو ایسی تمام فلاحی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ مصیبت کے اس وقت میں جہاں فلاحی تنظیمیں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں وہاں ان امدادی سرگرمیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سب سے اہم کردار بیورو کریسی کا ہے۔ لوگوں کو بر وقت اطلاع کر کے آنیوالے خطرات سے نکالنا اور انکی جان بچانے میں انتظامی افسران کا اہم کردار ہے۔ پختونخوا کے سیلاب سے متاثرہ شہر نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرةالعین وزیر کی ڈنڈا اٹھائے لوگوں کے دروازے پر جا کر انھیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ان کی کاوشیں رنگ بھی لائیں جب انھوں نے تمام افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔اسسٹنٹ کمشنر مچھ انجینئر عائشہ زہری کو، سیلاب سے متاثرہ علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کی بروقت مدد کرنے پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے سراہا۔ عائشہ زہری کہتی ہیں کہ25 اور 26 اگست کو مسلسل 36 گھنٹوں تک ہونے والی تیز بارش کے بعد جب میں چار محافظوں کے ہمراہ بی بی نانی کے مقام پر پہنچیں تو وہاں تین ہزار سے زائد لوگ پھنسے ہوئے تھے۔ غیر آباد پہاڑی علاقے میں پھنسے بیشتر مسافر دو دنوں اور تین راتوں سے بھوکے پیاسے تھے اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بے ہوش ہو رہے تھے۔ ہم نے بڑی مشکلوں سے خوراک کا بندوبست کرکے انہیں بچایا۔ اگر مزید تاخیر ہوتی تو مری جیسا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔
اسی طرح وطن عزیز کی ہونہار اور بہادر بیٹی وجیہہ ثمرین جو کہ لیہ کی تحصیل کروڑ میں بطور اسسٹنٹ کمشنر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔وجیہہ ثمرین فرنٹ لائن پر کھڑی ہو کر سیلاب زدگان کی مدد کر رہیں، سوشل میڈیا پر انکی ریسکیو آپریشن کی ویڈیو دیکھی، جس میں وہ ایک کشتی میں سوار ہیں اور پانی میں پھنسے لوگوں کو نکال رہی ہیں۔ وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، سیلاب متاثرین کو راشن فراہم کر رہی ہیں اور جن تباہ حال علاقوں میں کوئی مرد افسر بھی جانے سے گھبراتا ہے، وجیہہ ثمرین نے ان تباہ حال علاقوں میں پہنچ کر سیلاب زدگان کی مدد کر کے بہادری کی ایک مثال قائم کر دی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر وجیہہ ثمرین، عائشہ زہری اور قرت العین جیسی افسران ملک کا اثاثہ ہیں، ایسے افسران کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ وہ دلجوئی سے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن