مغربی پیمانے، معیارات اور اشاریے

Sep 08, 2022

علم و دانش کسی خاص مذہب، عقیدے یا نظریے سے تعلق رکھنے والوں کی جاگیر نہیں بلکہ انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ خدا کے طے کردہ اصولوں کے مطابق، اس ورثے کی ترویج و اشاعت اور حفاظت کی ذمہ داری ہمیشہ اس گروہ کو دی جاتی ہے جو اپنے عمل سے خود کو دنیا میں اس کا سب سے زیادہ اہل ثابت کرتا ہے۔ ایک وقت میں یونانیوں نے خود کو اس کا اہل ثابت کیا تو یہ میراث ان کے پاس رہی، وہ بدعملی کا شکار ہوئے تو یہ ورثہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر مسلمانوں کے پاس چلا گیا جنھوں نے اسے خوب ترقی دی۔ جب مسلمانوں نے خدا کے اصولوں سے انحراف شروع کیا تو یہ میراث ان سے یورپیوں کو منتقل ہوگئی۔ گزشتہ پانچ چھے سو سال سے یہ ورثہ انھی کے پاس ہے، وہ اس کے اہل ہونے کا حق بھی ادا کررہے ہیں اور ان کی علم و دانش سے وابستگی بھی مثالی نوعیت کی حامل ہے۔ لیکن جب یورپی اس میراث کے اہل نہیں رہیں گے تب یہ ورثہ کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ پانچ چھے صدیوں سے مغربی یا یورپی اقوام نے مادی ترقی کے میدان میں خوب جھنڈے گاڑے ہیں۔ یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مادی ترقی کے حصول کے لیے مغربی اقوام اور ممالک نے کسی اخلاقی قاعدے ضابطے کو پیش نظر نہیں رکھا اور جہاں، جسے اور جتنا بھی نقصان پہنچا کر وہ اپنے ہاں بہتری لانے کے قابل ہوسکے ہیں، انھوں نے اس میں باک محسوس نہیں کیا۔ ہندوستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں پر برطانویوں کا غاصبانہ قبضہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تقریباً دو دہائیوں کے دوران ہندوستان کو برطانویوں نے کیسے اور کتنا لوٹا اور اس کے سماج میں تقسیم در تقسیم کے کیسے کیسے بیج بوئے اس پر بہت سی تحقیقی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی استعمار کتنا سفاک اور بے رحم ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔
امریکا یورپ کا حصہ تو نہیں ہے لیکن اس پر قبضہ کر کے سفید فام نسل نے اس ملک کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ اس دوران مقامی باشندوں پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے ان کا بیان اپنی جگہ ایک داستان ہے۔ امریکا کے سیاہ فام باشندوں کو کئی بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ایک ڈیڑھ صدی سے زائد عرصے تک جنگ لڑنا پڑی۔ بیسویں صدی کے نصفِ اول کے خاتمے تک ان لوگوں کے ساتھ امریکا کے سفید فام شہریوں کی طرف سے جو سلوک روا رکھا جاتا تھا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ حد یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کا تقریباً ربع حصہ گزرنے کو ہے اور آج بھی امریکا میں سیاہ فام باشندوں کو کئی حوالوں سے نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ Black Lives Matter جیسی تحریک کے وجود میں آنے کے پیچھے بھی یہی امتیاز کارفرما ہے جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئی شکل دی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ بدلے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق، مغربی اقوام اب کسی ملک پر براہِ راست حملہ کر کے قبضہ کم ہی کرتی ہیں، زیادہ تر ملکوں اور خطوں میں وہ اپنے نظریات کی ترویج و اشاعت اس انداز میں کرتی ہیں کہ وہاں کی آبادی کا قابلِ ذکر حصہ ان کا ہم نوا بن جائے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں میں مغرب غیر سرکاری تنظیموں یعنی این جی اوز کے ذریعے اپنے نظریات کے فروغ کا کام کرواتا ہے۔ اس سلسلے میں ابلاغ کے مختلف ذرائع سے بھی مدد لی جاتی ہے اور مغرب میں قائم بین الاقوامی اداروں اور مراکز کے ذریعے ایسی رپورٹیں بھی منظر عام پر لائی جاتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں پیمانے، معیار یا اشاریے کے مطابق فلاں ملک اس درجے پر ہے۔ ان رپورٹوں کے لیے بنیاد فراہم کرنے والے پیمانے، معیارات اور اشاریے مغربی ممالک کے بنائے ہوئے ہوتے ہیں،سو ظاہر ہے کہ ان کے مطابق وہ ممالک شروع کے درجوں میں ہوں گے اور جو ملک ان کے نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے وہ ان پیمانوں، معیارات اور اشاریوں کے تحت پیچھے رہ جائیں گے۔
اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں جن معیارات کو بنیاد بنا کر عورت کی آزادی جانچی جاتی ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں اور معاشروں میں آزادی کے وہ تصورات رائج نہیں ہیں، لہٰذا ان معیارات کے مطابق مغربی ممالک آگے دکھائی دیں گے لیکن ان سے مختلف سوچ رکھنے والے ملک اور معاشرے پیچھے ہوں گے۔ اس صورتحال کو اگر بالعکس کردیا جائے یعنی کسی پاکستان، سعودی عرب یا ایران میں رائج حیا اور پاک بازی کے تصورات کی بنیاد پر اگر کوئی پیمانہ، معیار یا اشاریہ مقرر کیا جائے اور اس کے مطابق دنیا کے تمام ملکوں کا جائزہ لیا جائے تو یقینا مسلم ممالک اس حوالے سے شروع کے نمبروں پر ہوں گے اور مغربی ملک اس شمار میں کہیں بہت نیچے ہوں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مغربی ممالک مادی حوالے سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور ہیں اس لیے آج کی دنیا میں انھی کی بات سنی اور مانی جاتی ہے، اور ہمیں بھی دنیا میں اپنی بات منوانے کے لیے خود کو کئی حوالوں سے مثبت طور پر بدلنے کی ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مغرب کا طے کردہ ہر پیمانہ، ہر معیار اور ہر اشاریہ درست ہے اور ہمیں اس کو سامنے رکھ کر اپنے معاشرے کی تشکیل کرنی چاہیے۔

مزیدخبریں