قومی افق
عترت جعفری
ملک میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب نے ایک بڑا انسانی بحران پیدا کر دیا ہے ،خود حکومت کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ قریبا ساڑ ھے تین کروڑ افراد سیلاب کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں ،اگرچہ حکومت،مختلف فلاحی اداروں اورافواج پاکستان کی طرف سے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کافی کوشش کی جا رہی ہے تاہم ملک کو سیلاب سے کتنا نقصان ہوا ہے اس کی اعدادوشمار مرتب ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ ابھی تک جو ابتدائی تخمینے آئے ہیں وہ دس ارب ڈالر سے زائد نقصان کے ہیں ۔شدید سیلاب کے بعدملک کے اقتصادی اہداف پر نظر ثانی کی جارہی ہیں اور اس سلسلے میں وزارت خزانہ ،سٹیٹ بینک اور دوسری وزارتوں کے تعاون سے ماہرین نے کام شروع کر دیا ہے ۔آئی ایم ایف نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ پاکستان میںرواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح 3.5فی صد رہے گی، جو حکومتی ہدف سے کافی کم ہے ۔وزارت فوڈ سیکورٹی کے تعاون سے فیصلوںکو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، خاص طور پر گندم کی کاشت ،کپاس اور چاول کی پیدوار کے نقصان کا تخمینہ لگایاجا رہا ہے ،پاکستان نے سال رواں کے لئے5 فی صد کا گروتھ ریٹ مقرر کر رکھا ہے جو اب پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ۔ ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم نے سیلاب سے نمٹنے کے لئے کبھی موثر حکمت عملی بنانے پر توجہ نہیں دی ہے ،75ء کے بعد سے ملک میں شدید سیلاب آ رہے ،ہر سال ہم دو سے آڑھائی ارب ڈالر بہہ کر سمندر میں چلے جاتے ہیں اس کے باوجو د ملک میں آبی گذر گاہوں سے تجاوزات ختم کرنے یا پانی کو ذخیرہ کر لینے کا انتظام نہیں کیا جا سکا ۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے پاکستان میں تواتر سے آنے والے سیلابوں اور زلزوں کی وجہ سے ڈیزاسٹر رسک فنانس کے بارے میں سوچ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ،رسک کا مقابلہ کرنے کے لئے میکنزم بنانا چاہئے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں نیشنل ایمر جنسی کے لئے15 سے 20ملین ڈالر مختص کئے جاتے ہیں ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی سطح پر صرف ٖ10ملین ڈالر ہیں ،ملک کے اندر فصلوں کی انشورنس کی سطح بھی بہت کم ہے ،1.9فی صد آبادی ہی انشورنس کی حامل ہے ،2010اور2015ء کے سیلابوں میں صرف پنجاب کے کسانوں کو32ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ ان کو صرف6.7بلین روپے کا زر تلافی ملا ۔جبکہ کرونا کی وفا پھیلنے سے قبل بھی پاکستان کی مالی پوزیشن محدود ہی تھی ۔
سیلاب کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی جلسوں کی سیاست نے بھی ہیجان برپا کر رکھا ہے ،اس جماعت کے قائد کی طرف سے جلسوں میں جو زبا ن استعمال کی جا رہی ہے،اس نے پارٹی کے لئے بہت سی ظاہری اور نظر نہ آنے والی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے ۔معا ملات عدالتوں میں جا رہے ہیں ،الیکشن کمشن میں توشہ خانہ کیس چل رہا ہے اسلام آبادہائی کورٹ میں توہین عدلت کا کیس بھی زیر سماعت ہے ،پی ٹی آئی کے قائد کی جانب سے جج کو دھمکیاں دینے کے کیس میں اب جو جواب داخل کرایا گیا ہے اس میں اپنے ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد ہر گز توہین کرنا نہیں تھا ۔اسی طرح الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ کیس بھی آگے بڑھ رہا ہے ،جس میں پی ٹی آئی کے قائد نے قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے ریفرنس کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا ہے ۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی ایسی الھجن میں گھر جائے گی جو خود جماعت کے لئے بہتر نہ ہو گا،اس کیلئے پارٹی کو خود احتسابی کو رواج دینا ہو گا۔
آج ملک کی آبادی جس قدر غربت کا شکار ہے ،اگر زندگی کی ڈور کو قائم رکھنا ناممکن بن جائے گا تو ان کوسڑک پر نکلنے سے کوئی نہیں روک سکے گا ،افراط زر کو روکا جائے ،اس وقت جس طرح کا سیاسی ماحول ہے اس میں محاذ آرائی بڑھتی نظر آ رہی ہے مگر یہ کسی طرح سے بھی ملک کے مفاد میں نہیں ،کیونکہ مالی اور معاشی طور پر ملک ایک دو راہے پر کھڑا ہے۔آئی ایم ایف کی سٹاف رپورٹ بھی جاری ہو چکی ہے جو معیشت کے بارے میں چشم کشا ہے ،اس میں مہنگائی کے بڑھنے کی وجہ سے احتجاج شروع ہونے کے خدشہ کو بیان کیا گیا ہے ،حکومت کو کم از کم مہنگائی کا توڑ کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے بیرون ممالک سے ملنے والے تحائف سرکاری خزانے میں جمع کرادیئے۔ توشہ خانے میں جمع کرائے گئے تحائف کی مالیت 27 کروڑ روپے ہے۔ وزیراعظم کو یہ قیمتی تحائف خلیجی ممالک کے دوروں کے دوران ملے تھے۔اس بار وزیراعظم ہاؤس میں نئی روایت قائم کردی گئی ہے، شہباز شریف کی جانب سے غیر ملکی تحائف وزیراعظم ہاؤس میں ہی مستقل طور پر رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ قیمتی تحائف عوام کو دکھانے کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ عوام دوست ممالک کی پاکستان سے محبت سے آگاہ ہوسکیں ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛