اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)سےنٹ کی مجلس قائمہ خزانہ کے اجلاس مےں سٹےٹ بےنک کی طرف سے اضافی غےر ملکی کرنسی کےش کو برآمد کرنے کی اجازت ،اےس ای سی پی مےں ڈےٹا کی خلاف ورزی ، دارک وےب کے بارے مےں رجسٹرڈ کمپنےوں کی تفصےلات کی دستےابی اور دوسرے امور پر غور کےا گےا ،سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے حکومتی کمپنیوں کی گورننس اور آپریشنز بل 2022 کی منظوری موخر کر دی ،اور اےس ای سی پی کو ہدائت کہ کہ وہ ان لائن سکےورٹی نظام کو بہتر بنائے ،کمےٹی نے کہا کہ ڈےٹا کی خلاف ورزی کے معاملہ کو ذےادہ اچھالا گےا ، کمےٹی کو بتاےا گےا کہ اس معاملہ کی تحقےقات ہو رہی ہے اور جلد رپورٹ کمےٹی مےں پےش کر دی جائے گی ، موبائل فونز پر ٹےکسوں مےں اضافہ کے بارے مےں کمےٹی کو بتاےا گےا کہ ٹےکسوں مےں اضافہ نہےں کےا گےا ہے تاہم کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ کی وجہ سے درآمد پر عارضی پابندی لگائی گئی ہے ،قےمت مےں اضافہ رےگولےٹری ڈےوٹی کی وجہ سے ہے ،سینٹر محسن عزیز نے حکومتی کمپنیوں کی گورننس اور آپریشنز بل 2022 پر اعتراضات اٹھا دیئے، انکا موقف تھا کہ بل کو بغیر پڑھے منظور نہیں کیا جا سکتا ، بل کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ سینٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ بل کی منظوری کیلئے ضروری ہے کہ اس پر شق وار پڑھ کر منظوری دی جائے۔ سینٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ بل کی منظوری سے قبل ضروری ہے کہ حکومت ان کمپنیوں کی مالی حالات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی جائے تاکہ انکو بند کرنے چلانے یا نجکاری کا فیصلہ کیا جا سکے ۔کمیٹی نے کثرت رائے سے بل پر حکومتی کمپنیوں کے مکمل حسابات کی فراہمی تک موخر کر دیا ۔کمیٹی نے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں سے ائیرپورٹ پر سول ایوی ایشن کہ طرف سے نقد رقم ڈکلیئر کرنے کی شرط کو خلاف قانون قرار دیدیا۔ سینٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کی بیرون ملک جانے والے مسافروں سے تو پوچھ گچھ ٹھیک ہے مگر باہر سے آنے والوں سے کوئی ملک ایسی معلومات نہیں پوچھتا ۔سینٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ لوگوں کو ائیرپورٹ پر ہراس کیا جا رہا ہے ،پاکستان میں عام آدمی کیلئے زندگی سخت سے سخت کی جا رہی ہے وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہاکہ فیٹف کی شرائط کے تحت کچھ نئے اقدامات لیے گئے ہیں تاہم اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ سول ایوی ایشن یہ کام کس طرح کر رہی ہے کمیٹی نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ڈیٹا ہیک ہونے کا معاملہ پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ سینٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ انفارمیشن کی لیکیج سے ظاہر ہوتا ہے ادارے میں ڈسپلن نہیں ہے اس کی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہیے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد روپیہ ایک دن میں دس روپے گرا کیا ہوا،ایک چھوٹے یونٹ کا بجلی کا بل ایک کروڑ روپے آ رہا ہے،صنعتی ادارے بند ہو رہے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ کس کے کہنے پر لگڑری اشیاءکی درآمد کھولی گئی ۔ محسن عزیز نے کہاکہ مجھے 10 ہزار ڈالر کی درآمد کیلئے گورنر اسٹیٹ بینک سے ذاتی طور پر درخواست کرنا پڑی ۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ جو کمپنی ایک کروڑ ڈالر کی برآمدات کرتی ہے اس کو دس ہزار ڈالر کی بھی درآمد نہیں کرنے دی جا رہی ہے ۔ فارو ق ایچ نائیک نے کہاکہ پہلے ایجنڈا چلا لیں پھر محسن عزیز کے سوالات کا جائزہ لیں ۔ محسن عزیز نے کہاکہ سلیم مانڈی والا صاحب آپ پہلے بہت ایکٹو تھے مگر جب سے حکومت آئی ہے آپ سست ہو گئے ہیں ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ محسن عزیز کافی پرجوش ہو گئے ہیں ۔ محسن عزیز نے کہاکہ میں صرف پرجوش ہی نہیں پریشان بھی ہوں ،اکنامی فری فال میں ہے کوئی جواب دے ڈالر کی قدر کس طرح بڑھ رہی ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ ملک کو تباہ کر دیا آپ نے ہم بل پڑھے بغیر کس طرح مسترد کر سکتے ہیں ۔ عائشہ غوث پاشا نے کہاکہ اس وقت 200 سے زائد حکومتی کمپنیاں ہیں ، جن کی اکثریت خسارے میں ہے ،یہ قانون ان کمپنیوں کی استعداد بہتر بنانے کیلئے لایا جارہا ہے ۔وزیر مملکت خزانہ نے کہاکہ اس قانون کا اداروں کی نجکاری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ اگر کوئی باہر سے کیش رقم لے کر آتا ہے تو اس سے کیا مسئلہ ہے۔ ڈپٹی گور نر اسٹیٹ بینک نے کہاہک اب سول ایوی ایشن باہر سے آنے والوں سے غیر ملکی کرنسی ڈکلیئر کرنے کا فارم پر کرواتی ہے ۔ سلیم مانڈی والا نے کہاکہ یہ تو کسٹمز کا کام ہے سول ایوی ایشن کس قانون کے تحت ڈکلیئریشن مانگ رہی ہے ۔ کامل آغا نے کہاکہ اسٹیٹ بینک نے قانون چیک کیا کہ سول ایوی ایشن یہ کام کس طرح یہ کام کر سکتی ہے ۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہاکہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ سول ایوی ایشن کی طرف سے غیر ملکی ائیر لائنز کو دی جانے والی ہدایات کسٹمز کی مشاورت سے دی گئی ۔کامل علی آغا نے کہاکہ کس طرح ایک محکمہ ایسی ہدایات دوسرے محکمہ کو بغیر بتائے دے سکتا ۔ سلیم مانڈی والا نے کہاکہ اسٹیٹ بینک آئندہ 15 دنوں میں معاملہ کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرے ۔ کامل علی آغا نے کہاکہ محکمہ کسٹمز قانون کا اطلاق کرنے والا ادارہ ہے خود قانون بنانے کا اختیار نہیں رکھتا ،یہ کوئی بین الاقوامی سازش کا معاملہ لگتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اگر یہ کوئی غیر قانونی کام ہے تو ملوث افراد کیخلاف کارروائی کی جائے ۔ سینیٹر فیصل سلیم رحمن نے کہاکہ بیرون ملک سفر کرنیوالوں کو پہلے ہی بہت مسائل ہیں سول ایوی ایشن ان کو حل کرے ۔
منظوری مو¿خر
عمران خان نے اپنے دور میں جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں کیا:مصدق ملک
اسلام آباد(نا مہ نگار)وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ عمران خان نے اپنے دور میں جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں کیا، ملک کو برباد کرنے والے ہی خود کو مسیحا سمجھتے ہیں، جو بھی قانون و آئین توڑے گا پکڑا جائے گا، کسی کو تفتیش کیلئے بلایا جا رہا ہے تو اسے صفائی دینے کیلئے پیش ہونا چاہئے، چار سالوں میں گردشی قرضہ 11سو ارب روپے سے 25سو ارب روپے تک اور بجلی کی قیمت ساڑھے 14روپے سے 24روپے فی یونٹ تک پہنچا گئے، بلین ٹری سونامی کرپشن کا منصوبہ تھا، بجلی کی قیمت کی ری بیسنگ اڑھائی سال پہلے ہو جاتی تو فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم نہ بنتی، موجودہ حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ نہ لے کر عوام کو ریلیف دے رہی ہے، سیلاب متاثرین کیلئے 70ارب روپے کی فوری منظوری دی گئی ہے، پچھلے سال کے مقابلہ میں رواں سال موسم سرما میں گیس کی صورتحال بہتر ہو گی۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کو برباد کرنے والے خود کومسیحا سمجھتے ہیں، 2013 میں جب مسلم لیگ (ن)نے حکومت سنبھالی تھی تو 13سے 14گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول تھی، ملک میں بجلی اور گیس کا بحران عروج پر تھا، مسلم لیگ (ن)کی سابقہ حکومت نے 11 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی اور قطر سے سستی گیس کے معاہدے کئے، اس وقت 2ارب مکعب فٹ یومیہ گیس کی کمی تھی، ہم نے 1.2ارب مکعب فٹ ایل این جی کی ری گیسیفیکیشن کے منصوبے لگائے، مسلم لیگ (ن) نے اپنے سابقہ دور میں 8سے 9ہزار کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھایا اور روزگار کے مواقع پیدا کئے، محمد نواز شریف سی پیک کی صورت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں لائے، عمران خان چار سال چور چور کا راگ الاپتے رہے، بجلی کی پیداوار کیلئے کچھ بھی نہ کیا، عمران خان بتائیں کیا اس نے اپنے دور میں ایک میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی؟،پی ٹی آئی والے بتائیں کیا انہوں نے اپنے دور میں ایک کلومیٹر سڑک بنائی؟، پی ٹی آئی نے گذشتہ چار سال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دور کے ترقیاتی منصوبوں کے فیتے کاٹے، بلین ٹری سونامی کرپشن کا منصوبہ تھا، جو کروڑوں درخت لگائے تھے وہ کہاں گئے؟، ہمیں مہنگی بجلی پیدا کرنے کا الزام دیا جاتا تھا لیکن 2018 میں بجلی کی پیداواری لاگت 10روپے 40پیسے فی یونٹ تھی جسے پی ٹی آئی نے چار سال میں 15روپے 40پیسے فی یونٹ تک پہنچا دیا، اسی طرح ہمارے دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 14روپے 50پیسے تھی جسے سابق دور میں 23سے 24 روپے فی یونٹ تک پہنچا دیا، ہمارے دور میں گردشی قرضہ 11 سو ارب روپے تھا،عمران خان دور میں گردشی قرضہ 25سو ارب روپے کی سطح تک پہنچا، عمران خان نے اپنے دور میں جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہ کیا، ان کے دور میں بجلی کے واجبات کی وصولی کم ہو گئی لیکن چوری میں اضافہ ہوا، جب دنیا میں سستی ترین گیس مل رہی تھی تو سابق دور میں کیوں نہ لی گئی؟ شوکت ترین نے آئی ایم ایف معاہدہ ناکام بنانے کیلئے صوبائی وزرا خزانہ کو خط لکھنے کا کہا، یہ ملک کو دیوالیہ کرنے کی کوشش تھی لیکن موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو مکمل کیا ہے، قطر اور متحدہ عرب امارات نے تین تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہے، صرف آئل ریفائنری میں 2ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہو گی،عمران خان نے چین، قطر اور امریکہ سمیت سب ممالک پر الزامات لگائے، کشمیر پر ثالثی امریکہ کو دی پھر اسی امریکہ پر سازش کا الزام بھی لگا دیا، سابق دور میں ملک کو معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر پہنچا دیا گیا، عمران خان کی انا نے ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی تباہ کی اور یہی انا آج ان کی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔ مصدق ملک نے کہا کہ قانون ان لوگوں کو پکڑے گا جو بغاوت پر اکساتے ہیں، قانون شکنی اور آئین شکنی کرنے والا پکڑا جائے گا، کسی کو تفتیش کیلئے بلایا جا رہا ہے تو اسے صفائی دینے کیلئے پیش ہونا چاہئے لیکن اگر کسی کے غیر ظاہر شدہ اکاﺅنٹس سے 78 کروڑ روپے نکلے ہیں تو اسے بتانا چاہئے کہ یہ رقم کہاں سے آئی اور کس نے وصول کی،ایٹمی پروگرام کے مخالف ڈیوڈ فینٹن کو اپنا لابسٹ مقرر کرنے، ملک ریاض سے 450 کنال زمین لے کر 250 ملین ڈالر اسے دینے اور عارف نقوی سے 3 ملین پاﺅنڈ لے کر اسے 250 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی، ملک ریاض کے کیس میں تحقیقات ہو رہی ہیں، یہ بات نہیںچلے گی کہ کوئی سمجھے کہ میں طاقتور یا مقبول ہوں اس لئے مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گیس کنکشن پر پابندی سابق حکومت کے دور میں لگائی گئی تھی، اس کے ساتھ ساتھ ایک قانون بھی وہ بنائے گئے، ہم نئی پالیسی لا رہے ہیں تاکہ ملک کے اندر گیس کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ درآمد بھی بڑھائیں، وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کو یہ تمام معاملات حل کرنے کی ہدایت کی ہے، رواں سال موسم سرما میں پچھلے سال کے مقابلہ میں گیس کی صورتحال بہتر ہو گی۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت کی ری بیسنگ اڑھائی سال پہلے کر دی جاتی تو فیول ایڈجسٹمنٹ نہ بنتی، موجودہ حکومت فیول ایڈجسٹمنٹ نہ لے کر لوگوں کو ریلیف دے رہی ہے، سیلاب متاثرین کیلئے وفاقی کابینہ نے 70 ارب روپے کی منظوری دی ہے، وزیراعظم خود بھی متاثرہ علاقوں کے دورے کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کے دکھ درد کو بانٹا جا سکے، سابق حکومت جاتے جاتے عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ کے باوجود ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دیں لیکن اس کیلئے کوئی فنڈز مختص نہ کئے اور اس فیصلہ سے ماہانہ 110 سے 120 ارب روپے کا خزانہ کو نقصان ہوا۔
مصدق ملک