بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، آئی ایف ایف، سی آئی ای سی اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پبلک ڈیٹا کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ 1947 میں ایک امریکی ڈالر پاکستانی تین روپے 31 پیسے کا تھا۔1958 میں جب جنرل ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لا لگایا تو اس وقت ایک امریکی ڈالر چار روپے 76 پیسے پر پہنچ گیا اور 1971 تک معمولی سے فرق کے ساتھ اسی سطح پر برقرار رہا۔پرویز مشرف دورمیں ڈالر سال 2000 میں 53 روپے 64 پیسے سے شروع ہوا اور 2008 میں 70 روپے 40 پیسے تک پہنچ گیا۔یعنی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔2009 سے 2018 تک پیپلز پارٹی اور لیگی حکومت میں رہیں۔ اس دوران ڈالر کی قدر 81 روپے 71 پیسے سے 2018 تک 121 روپے 82 پیسے پر پہنچ گئی۔یعنی ان دس سالوں میں ڈالر کی قدر میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔عمران خان کے دور اقتدار میں ڈالر 2019 میں 150 روپے پر پہنچ گیا جو اپریل 2021 میں ان کی وفاقی حکومت کے خاتمے تک 180 روپے پر تھا، یعنی عمران خان کے دور حکومت میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 47 فیصد اضافہ ہوا۔پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کی اتحادی حکومت میں ڈالر اب تک تقریباً 240 روپے تک پہنچ گیا ہے، یعنی تین ماہ میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 33 فیصد اضافہ ہوا ۔یوں ہر دور میں ڈالر اور روپے کے درمیان داوءپیچ جاری رہے.
75 سال کی مہنگائی کی شرح، قیمتوں میں اتار چڑھاو اور دیگر اقتصادی اشاریوں کو مد نطر رکھیں تو مجموعی طور پر پاکستانی روپے کی قدر میں 1229 فیصد کمی آئی ہے۔اسان الفاظ میں یہ کہ اگر 1947 میں آپ کے پاس ایک روپیہ تھا تو وہ آج کے ایک ہزار 229 روپے بنتے ہیں۔
پاکستانی کرنسی کی قدرمیں گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں زبردست اضافہ ہوا ہےاورڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر 9.59 روپے بڑھی ہے۔پاکستانی روپے میں اب تک ایک دن میں یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔بینک دولت پاکستان (اسٹیٹ بینک) نے کہا ہے کہ روپیہ 4.19 فی صد اضافے کے ساتھ 228.80 روپے پر بندہواہے جبکہ گذشتہ روزاس کا ڈالر کے ساتھ لین دین 238.38 روپے پربند ہوا تھا۔روپے کی قدرمیں یہ مطلق طور پرایک دن میں سب سے زیادہ بڑھوتری ہے۔آج کی اس بحالی کاایک حصہ ان توقعات پر بھی مبنی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے جو قسط جاری کی ہے. اسٹیٹ بینک نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ نے ساتواں اور آٹھواں جائزہ مکمل ہونے پر پاکستان کے لیے پہلی 1 ارب سولہ کروڑ ڈالر کی قسط جاری کردی ہے۔واضح رہے کہ چند روز قبل عالمی مالیاتی ادارے نےپاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالرز کی قسط منظور کی تھی۔قرض پروگرام میں جون 2023 تک توسیع کی منظوری دی گئی ہے جبکہ پاکستان کے لیے قرض پروگرام 6 ارب ڈالر سے بڑھا کر ساڑھے 6 ارب ڈالر کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ڈالر کے اتار چڑھاو کی وجوہات میں ایک وجہ ڈالر کی اسمگلنگ بھی ہے. افغانستان میں ڈالروں کی اسمگلنگ کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اورانٹربینک مارکیٹ کے نرخ میں 10روپے کافرق تھا جو اب سرحد پر سخت سکیورٹی کی وجہ سے برابر ہوگیا ہے۔افغانستان میں ڈالروں کی منتقلی رک گئی ہے جس کے اثرات سے روپےکو تقویت ملی ہے۔اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس وقت معاشی بچ پر چھکے چوکے لگا کر روپے کی قدر میں اور معاشی بہتری میں اسکور کررہے ہیں. آئی ایم ایف کی ٹیم کے اعتماد بڑھانے والے تبصروں سے جذبات میں بہتری آئی ہے، اس کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں کمی اور زیادہ انوینٹری سے کرنٹ اکاو¿نٹ پر اب موافق اثر پڑے گا۔ عالمی اورمقامی کسادبازاری کے ساتھ ساتھ تیل، خوراک اور اشیائ کی قیمتوں پراثرانداز ہونے یا کم ہونے سے درآمدی بل بہت کم ہو جائے گا جس سے ڈالر کے اخراج کی طلب میں کمی آئے گی۔اس سے کم سے کم کچھ عرصے کے لیے ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی.آئیایم ایف کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان مشکل معاشی موڑ پر کھڑا ہے، مہنگائی بڑھنے پر ملک گیر مظاہروں کا خدشہ ہے، اتحادی حکومت پارلیمنٹ میں کمزور اکثریت کی حامل ہے، کشیدہ سیاسی ماحول کے دوران کئی اہداف پورےنہیں ہوئے، متعدد وعدوں پر بھی عمل نہیں کیا گیا تاہم پاکستان میں مالی سال 2022 کے دوران معاشی سرگرمیاں مضبوط رہیں، حکومت نے قرض پروگرام کو ٹریک پر لانے کیلئے کئی اقدامات کئے، بنیادی سرپلس پر مبنی بجٹ، شرح سود میں نمایاں اضافہ شامل ہیں، فیول سبسڈی کا خاتمہ، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا،خوراک، ایندھن کی عالمی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق حکومت نے مالیاتی شعبے کے استحکام کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کرا دی ہے، آئی ایم ایف کا مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ برقرار رکھنے پر زور دیا گیاہے، سماجی تحفظ اور توانائی شعبے کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا گیا، آئی ایم ایف کا ٹیکس ریونیو اور زرمبادلہ زخائر میں اضافے پربھی زور دیا گیا ہے۔قرض پروگرام کی مدت میں جون 2023 تک توسیع کر دی گئی، اس سے ضروری بیرونی فنانسنگ کے حصول میں مدد ملے گی، پالیسی اصلاحات کے باوجود قرض پروگرام کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان کنٹری رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے قرض پروگرام میں طے کیے گئے اہداف اور وعدوں سے انحراف کیا جس سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے وعدہ خلافی کرکے پیٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں کمی کی، جب کہ ٹیکس چھوٹ دینے سے مالی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ ہوا اور زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر گرنے سے پاکستان میں مہنگائی بڑھ گئی۔بیرونی پوزیشن غیر مستحکم اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں اضافہ ہوا،زرمبادلہ زخائر اور روپے کی قدر میں نمایاں کمی آئی ہے زرمبادلہ زخائر، پرائمری بجٹ خسارے سمیت 5 اہداف پورے نہیں کئے گئے، آئی ایم ایف اس کے علاوہ سات اسٹرکچرل اہداف پر بھی عمل نہیں کیا گیا ہے.
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے، جس سے روپیہ اور مضبوط ہو گا۔ ایکس چینج ریٹ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے پر اتفاق رائے اور چین سے جلد دو ارب تیس کروڑ ڈالر ملنے کے اعلانات پر ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ہوئی ہے۔ ان کے بقول ڈالر کی قیمت میں مزید کمی کا امکان ہے۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے مطابق ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، ''چین نے دو ارب تیس کروڑ ڈالر کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں، چند روز میں پیسے پاکستان منتقل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف معاہدے میں بھی پیشرفت ہوئی ہے۔ ماضی میں غریب کے لیے ٹیکس عائد کیا جاتا تھا۔ عمران خان ملک کو دوالیہ چھوڑ کر گئے تھے، آئندہ تین ماہ میں حالات یکسر تبدیل ہوں گے۔“ڈالر کی قیمت میں کمی سے تاجروں اور صنعت کاروں میں خوشی کی لہردوڑ گیءہے. ڈالر کی قیمت کم ہونے سے درآمدی بل میں بھی کمی ہو گی، پاکستان کا تجارتی خسارہ کم ہوگا اور یقیناً مہنگائی میں بھی کمی ہو گی۔“