ڈوبتے پاکستان اور سسکیاں بھرتی دکھی انسانیت کی ترستی نگاہیں دیکھ کر ہر آنکھ نم ہے۔ ہفتے گزر گئے مگر سمندر کا منظر پیش کرتے میدانی علاقوں کے متاثرین سینہ پیٹ پیٹ کر امداد کے منتظر رہے۔سیلاب زدگان کی بے بسی اور تباہی کے مناظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دوسری جانب ابھی بھی ملک میں موجود مختلف مافیاز کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔جو آزمائش کی اس گھڑی میں خوب فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں جسکا عملی مظاہرہ ہمیں ماہِ رمضان کے آغاز میں بھی نظر آتا ہے جب سبزی اور پھلوں سمیت ہر کھانے پینے کی چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس مافیا کا ایک اور عملی مظاہرہ کرونا جیسی آفت کے دوران نظر آیا جب پانچ روپے والا ماسک بیس سے تیس روپے میں فروخت کیا گیا جوکہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا.... اب جبکہ وطن عزیز کو سیلاب جیسی قدرتی آفت کا سامنا ہے تو ایسے میں یہ مافیا پھر سرگرم نظر آتا ہے ۔ 4ہزار والا ٹینٹ 20ہزار میں کھلے عام فروخت کیا جارہا ہے اور ایسے میں بھلا ٹرانسپوڑٹمافیا کیوں پیچھے رہے اس نے بھی مصیبت زدہ لوگوں کی مجبوری کا خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے کرایوں میں من مانا اضافہ کردیا۔
دوسری جانب حالات اس قدر سنگین ہورہے ہیںکہ متاثرہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔سندھ میں لوگوں نے ایک نجی گودام پر دھاوا بول کر خیمے اور راشن وغیرہ چھین لئے۔ ایک کہاوت کہ مرتا کیا نا کرتا۔ جبکہ اسکے برعکس پاکستان میں مخیراور درد دل رکھنے لوگوں کی کمی نہیں ہے اور ان افراد کی جانب سے عطیات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور دل کھول کر سیلاب متاثرین کی مدد کی جاری ہے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین نے اپنی دو ماہ کی تنخواہ سیلاب متاثرین کے لیے عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔سنگر ابرار الحق نے بھی طے شدہ کنسرٹ کی آمدن سیلاب متاثرین کے لیے متخص کردی۔
مصیبت اور آزمائش کی اس گھڑی میں پاک فوج جس قومی جذبے سے متاثرہ اضلاع میں ریسکیو اور ریلیف کے فرائض سرانجام دے رہی اسکی مثال نہیں ملتی۔ فوجی جوان ہمیں امدادی کاروایوں میں ہمہ تن گوش دکھائی دیتے ہیں ۔جس کی زندہ مثال ریلیف اور ریسکیو کے کاموں مصروف وہ ہیلی کاپٹر سانحہ ہےجس میں کور کمانڈر سمیت 9 افسر و جوان شہید ہوئے لیکن اس کے باوجود ہماری فوج کے حوصلے ابھی اس قدر بلند ہیں کہ اعلی فوجی افسران کی شہادت کے باوجود بھی جان ہتھیلی پر لیے اپنے لوگوں کی جان بچانے کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ جہاں ہمیں
تربیلا ڈیمکے متاثرین کی قربانی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے ۔ 120 دیہات کے 96 ہزار مکینوں نے نقل مکانی کا کڑوا گھونٹ بھر کر ملک و قوم کے کل کیلئے اپنا آج قربان کردیا تھا۔ اس ڈیم کو مسلحہ واپڈا اہلکار ایسے ہی مانیٹر کرتے ہیں جیسے سرحدوں کو فوج۔ مگر غیرمعمولی سیلابوں نے اسکو بھی ناکارہ بنا دیا۔آج ملک ایسے حالات سے دوچار ہے کہ بلاول کے آنسو بھی حقیقی معلوم ہوتے ہیں۔ محترم بلاول تو یہ بات جانتے بھی تھے کہ جب بارش آتی ہے تب پانی آتا ہے مگر وہ شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ جب زیادہ بارش آتی ہے تب سیلاب آتا ہے۔ اسی لیے شاید کافی عرصے سے سندھ میں حکومت کرنے کے باوجود بھی وہ ضروری اقدامات لینے میں خاصے ناکام نظر آتے ہیں جس کے پیشِ نظر آج سندھ کا کوئی حصہ خشک دکھائی نہیں دے رہا۔البتہ صرف سندھ حکومت کو قصوروار ٹہرانا بھی مناسب نہ ہوگا کیونکہ ملک کا دو تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ بلوچستان، سندھ، اور جنوبی پنجاب سمیت ملک کا شمالی حصہ اونچے درجے کے سیلاب سے خاصہ متاثر ہوا ہے۔سوگ میں ڈوبی ہے عوام اور بے پرواہ ہیں حکمران۔مقبول لیڈر عمران خان نے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے حوالے سے500 کروڑسیلاب ریلیف ایمرجنسی فنڈ کیلئے جمع کرنے کا دعوی کیا مگر وہ بھی ان حالات میں اپوزیشن کے خلاف جنگ جاری رکھیں ہوئے ہیں اور خوب جلسوں میں نظر آتے ہیں محترم عمران خان کو حقیقی آزادی اور شہباز گل کی جنگ چھوڑ کر اپنے ووٹرز کو عزت دینی چاہیے جنہوں نے پنجاب میں انکی حکومت کو دوبارہ یقینی بنایا۔ دوسری جانب اپوزیشن کا جواز ہے کہ وہ جلسہ جلسہ کھیلنے کی بجائے سیلاب سے نمٹیں گے۔کالا باغ اور دیامر بھاشا ڈیم کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے اور متعلقہ ادارے عوام کے بھروسے کو ایسے چکنا چور کر کے فرار ہوئے کہ کئی اب وزیراعظم فلڈ ریلیف فنڈ میں عطیا کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔وزیرِاعظم شہباز شریف اور دیگر سیاسی رہنماوں کا سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ اور حکومت کا امداد کے لیے ریڈیو پاکستان میں میراتھن تڑانسمیشن کا انعقاد قابلِ ستائش ہے۔زندگی اور موت بیشک خدا کے ہاتھ میں ہے مگر وسیلہ انسانوں کو ہی بنایا جاتا یے۔ قاٰئم مقام گورنر سپیکر سندھ سراج درانی کی طرح اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر حکومت کی لاپروائی کو عوام کے گناہوں کی سزا کہنا نہایت غیراخلاقی اور اذیت ناک عمل ہے۔کیونکہ سیلاب تو بلاشبہ حکومت کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ گناہوں کی سزا ہوتی تو صرف غریب کی جھونپڑی تک ہی تمام قوم کے گناہوں کی سزا کیوں محدود رہتی، جاتی امراء، بلاول ہاوس، اور بنی گالہ کے بھی متعدد حصے پانی کی نذرہوتے۔
خواہ جتنی ہی بڑی حکومت کیوں نہ ہو مگر وہ تنہا کسی ناگہانی آفت کا سامنا نہیں کر سکتی۔ اسی کے پیشِ نظر کئی ممالک سے امداد کا سلسلہ جاری ہوا جن میں ترکی، ایران، برطانیہ، چائنہ، امریکہ اور دیگرممالک شامل ہیں۔ مگر زیریں دریا کے باعث پاکستان کو انڈیا کی طرف سے بھی پانی کا خطرہ ہے۔عالمی برادری نے مدد تو کی ہی مگر یہ وہ معاملہ ہے جس میں پاکستان امداد کا محتاج نہیں ہے بلکہ اس کو زیادہ کاربن خارج کرنے والی ممالک کی غلطیوں کی تلافی کی رقم ادا کرنی چاہیے۔ کیونکہ پاکستان عالمی سطح پر گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج کا 1 فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرے والے 10 ممالک میں مستقل طور پر شامل ہے۔ جنوبی ایشیاء موسمیاتی بحران کا مرکزہے لہذا اب وقت آچکا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے ضروری اقدام لیے جائیں کیونکہ آج یہ پاکستان ہے، کل یہ آپ کا ملک ہو سکتا ہے۔ایک نگاہ اس جانی اور مالی نقصان پر ڈال لی جائے جو سیلاب کے باعث ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ بھی کہنا ٹھیک نہ ہوگا کہ اس وقت صرف جانی نقصان پر غور کیا جائےکیونکہ 9 سو ارب روپے کا جو جھٹکا پاکستان کو لگا ہے اس سے قحط سالی سمیت 9 فیصد سے زائد جی ڈی پی کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 160 میں سے 110 اضلاع متاثر ہوئے اور پونے 7 لاکھ مکان زمین بوس ہونے سے انفراسٹرکچر کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑا۔سیلاب کے پیشِ نظر پاکستان میں مہنگائی کی شرح 44 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی۔ملک میں کھاد کی عدم دستیابی سے غذائی بحران کا خوفناک خدشہ لاحق ہے۔ مون سون کی غیر روایتی بارشوں سے کم و پیش 30 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور ایک ہزار سے اوپر جان بحق۔ ان ہلاکتوں کا سبب سیلاب کے علاوہ بھارت سے سیلابی ریلے میں بہہ کر آنے والی ایک بارودی سرنگ کا پھٹنا بھی شامل ہے۔یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیلاب نہیں ہے بلکہ 2010 کے سیلاب میں ملک کا پانچواں حصہ ڈوب گیا تھا اور بستیوں کی بستیاں اجڑ گئی تھی مگر ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ اپنی آپ بیتی سے نہ سہی چائنہ کی تاریخ سے ہی کچھ سیکھ لیتے کیسے انہوں نے دریائے ینکتزی کے قہر پر قابو پایا۔ پاکستان کو چاہیے کہ گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے شجرکاری پر رجحان بڑھایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئےابتدائی انتباہ کے نظام کو بہتر بنایاجائے۔افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ موسم کا حال بتانے والوں نے مزید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جس سے وبائی امراض کا پھیلاو¿ کئی گناہ بڑھ جائے گا۔افسوس صد افسوس وطن عزیز ڈائمنڈ جوبلی تک پہنچ گیا لیکن دوسری جانب ہم 75 سال میں بارشوں سے آنے والے سیلاب کو روکنے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنا سکے۔