خان صاحب کے وکیل نے بتایا کہ اٹک جیل میں خان صاحب کے سیل کی ٹین کی چھت طوفانی بارش کی وجہ سے ٹوٹ گئی اور کوٹھڑی میں پانی بھر گیا۔
ٹین کی چھت ٹوٹ گئی، یہ تو بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے سے بھی بڑھ کر سنہری موقع ملا تھا لیکن خان صاحب نے فائدہ نہیں اٹھایا۔ حقیقی آزادی کا ایک نادر موقع انہوں نے ضائع کر دیا۔ وہ تصویر اہل نظر کو یاد ہو گی جس میں ، مشرف کے دور کی وکلا تحریک میں خان صاحب کو سات آٹھ فٹ کی دیوار کو ایک ہی چھلانگ میں عبور کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ کوٹھڑی کی دیوار اس سے زیادہ اونچی کیا ہو گی، اوپر کھلا آسمان نظر آ رہا ہو گا، عشق کی ایک ہی جست میں خان صاحب غلامی کا قصّہ پاک کر کے حقیقی آزادی کی منزل پا سکتے تھے لیکن افسوس، یہ موقع ضائع ہوا۔ چلئے کوئی بات نہیں، اگلی برسات کا انتظار کر لیتے ہیں، کون سی زیادہ دور ہے، سال بھر ہی کی بات ہے۔ وکیل شیرافضل مروت کو چاہیے کہ خان صاحب کو اگلا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے کی تلقین ابھی سے کر دیں۔
______________
مروت صاحب نے بتایا کہ خان صاحب کے سیل میں مکھیاں بہت زیادہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک صاحب نظر نے بتایا کہ جیل کے دوسرے کمروں میں اتنی زیادہ مکھیاں نہیں جتنی خان صاحب کے سیل میں ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاغوتی طاقتیں جان بوجھ کر ایک بندوبست کے ذریعے جیل بھر کی مکھیاں ان کے کمرے میں چھوڑ دیتی ہیں۔
’’لارڈ آف فلائیز ( OF FLIES LORD ) نامی ناول یاد آ گیا۔ ولیم گولڈنگ کے اس ناول پر 1990ء میں فلم بھی بن چکی ہے ، یعنی مشہور عالم بانوے کے ورلڈ کپ سے دو سال پہلے۔ خان صاحب نے بھی شاید دیکھی ہو۔ مروت صاحب نے یقینا نہیں دیکھی ہوگی کیونکہ سْنا ہے، وہ صرف ’’گولڈ اینڈ گینز‘‘ والی فلمیں دیکھتے ہیں۔ لارڈ آف فلائیز یعنی مکھیوں کا راجہ یا آقا…بہرحال یہ کہانی ایک ویرانے کی ہے، جیل ویرانہ نہیں ہوتی، رونق لگی رہتی ہے اور اب تو خیر سے پرویز الٰہی جیسے سدا بہار نوجوان کی آمد کے بعد سے رونق دو تین بالا ہو گئی ہے۔ خان صاحب پی ٹی آئی کے چیئرمین ، پرویز الٰہی صدر ہیں۔ یعنی پوری پارٹی کا دریا الگ جیل کے کوزے میں بند ہو گیا۔
چلئے، اس معاملے پر زیادہ شکوے کی ضرورت نہیں۔ خان صاحب طلسماتی اور مقناطیسی شخصیت ہیں۔ ان کی برق مقناطیسی کشش سے متاثر ہو کر کارکن ان پر مکھیوں کی طرح ٹوٹتے ہیں چنانچہ اگر مکھیاں بذات خود ان پر ٹوٹ پڑی ہیں تو کارکنوں کی کمی انہوں نے پوری کر دی۔ پی ٹی آئی اس پرکشش واقعے یا وقوعے کو انتخابی مہم میں بھی استعمال کر سکتی ہے۔
______________
چودھری پرویز الٰہی نے اپنی چھٹی گرفتاری قبل از رہائی کے موقع پر اخبار نویسوں سے مختصر ٹاکرے میں بتایا کہ دراصل انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر ان کے سابق برادر چودھری شجاعت نے مجبور لیا تھا۔
سابق اس لئے کہ بظاہر اب یہ بھائی چارہ ختم ہو گیا۔ چوہدری پرویز الٰہی کے اس بیان سے ان کے ’’عقیدت مندوں‘‘ کے دل یقینا ٹوٹ گئے ہوں گے جو یہ سمجھتے تھے کہ پرویز الٰہی حقیقی آزادی کے جہاد میں شریک ہونے کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ پتہ چلا کہ یہ تو مجبوری کا سودا تھا۔ سابق برادر نے کہا کہ کھائی میں کود جائو، خزانہ ملے گا، یہ کود گئے۔ خزانہ تو نہ ملا، اب کھائی میں پڑے دہائی دے رہے ہیں۔
______________
نیم مصدقہ ذرائع کے مطابق کچے کے ڈاکوئوں کیخلاف آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ کل ہی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر آئی۔ دکھایا گیا کہ کچّے کے ڈاکو ایک آٹھ دس سال کے بچے کو کوڑوں سے مار رہے ہیں اور وہ مظلوم اپنے والدین سے اپیل کر رہا ہے کہ انہیں پیسے دے کر مجھے رہا کروائو۔
کچّے کے ڈاکوئوں نے ریاست کو منہ کے بل گرا رکھا ہے اور آج سے نہیں ، کئی برسوں سے وہ بے دھڑک ایک بڑے علاقے پر اپنی حکومتی قائم کئے ہوئے ہیں۔ وہ بکتر بند گاڑیوں کے جلوس میں ہتھیار بند ہو کر آزادانہ گھوتے ہیں۔ یہ بکتر بند گاڑیاں انہوں نے پولیس سے نہیں چھینی ہیں بلکہ قبائلی علاقے میں ٹی ٹی پی والوں سے خریدی ہیں۔ یعنی گٹھ جوڑ بھی ہے، طاقت اور وسائل بھی۔
ماجرا یہ نہیں کہ ریاست کمزور پڑ گئی بلکہ یہ ہے کہ سندھ کے بہت سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی، وڈیرے اور گدّی نشین اس کاروبار کے اصل مالک ہیں اور یہ ڈاکو ان کی فرنچائز ہیں۔
نیم مصدقہ خبر اگر مصدقہ ہو جائے تو نتیجے کا انتظار کریں ورنہ جو ہے، سو ہے۔ جو ہو گا، سو ہو گا۔
______________
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بجلی کے بلوں میں کمی کیلئے ملک کے کئی شہروں میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
ہڑتال کی، بل کم ہوئے؟۔ دھرنوں سے بھی کم نہیں ہوں گے البتہ سیاسی انارکی بڑھے گی۔
پتے کی بات یہ ہے کہ انارکی بڑھے یا نہ بڑھے، سراج الحق صاحب کے ممدوح خان صاحب کے مسائل میں ’’افاقے‘‘ کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پھر یہ زحمت بے ثواب کر کے کارکنوں کو کیوں تھکا رہے ہیں۔ تعمیری سیاست سے جماعت عرصہ ہوا کہ توبہ کر چکی۔ اچھی بات ہے کہ یہ توبہ توڑ دی جائے۔ اگرچہ مشکل ہے۔
______________
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مارکیٹیں اذان مغرب پر بند کر دی جایا کریں گی۔ فیصلے پر عملدرآمد /15 اکتوبر تک متوقع ہے۔
دنیا بھر میں مارکیٹیں شام کو بند ہو جاتی ہیں۔ کچھ ملکوں میں سات بجے تک بھی کھلی رہتی ہیں، اس کے بعد وہ بھی بند ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں چونکہ ہر معاملے کی گنگا الٹی بہتی ہے چنانچہ یہاں رات گئے تک بازار چکاچوند رہتے ہیں۔ تاجر اربوں کی بجلی ضائع کرتے ہیں، بل نہیں دیتے، ٹیکس بھی نہیں دیتے، کارروائی کرنے لگو تو دھمکی دیتے ہیں۔ توانائی کے بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ کئی حکومتوں نے توانائی بچانے کی کوشش کی لیکن تاجروں نے ہر بار اسے ناکام بنا دیا، ان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ’’سٹے آرڈر‘‘ بھی مل جاتا ہے۔
لیکن لگتا ہے، اب کی بار ’’ڈنڈا پیر‘‘ کچھ زیادہ، ہی سنجیدہ ہے۔ جو لگتا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو بجلی چوری کرنے والوں، بل نہ دینے والوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے گھٹنوں کے بل گرنے کے دن آ گئے۔ کسی نے بتایا، اس بار فیصلے پر اے ٹو زیڈ عمل کرکے دکھایا جائے گا۔
ڈنڈا پیر سنجیدہ ہے
Sep 08, 2023