ڈاکٹرمحمد افضل بابر مرکزی صدر پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک
یونیسکو ماضی کیطرح اس سال بھی اپنے ممبر ممالک اور پارٹنر سے ملکر 8ستمبر2023کو عالمی یومِ خواندگی منا رہاہے جس کا موضوع ہے "منتقلی میں دنیا کے لئے خواندگی کو فروغ دینا۔ پائیدار اورپرامن معاشروں کی بنیاد بنانا" گزشتہ برسوں کے دوران تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی سیاق و سباق نے خواندگی کی پیش رفت میں رکاوٹ پیدا کرنے اور دنیا کے علاقوں، ممالک اورآبادیوں میں عدم مساوات بڑھانے نے ایک نیا معنی اختیار کیا گیا ہے۔کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 10سالہ عمر کے بچوں کا حصہ جوفہم کے ساتھ ایک سادہ متن کو نہیں پڑھ سکتے تھے 2019میں 57فیصد سے بڑھ کر2022میں 70فیصد ہوگئے ہیں۔اس بار عالمی یومِ خواندگی تعلیم اور زندگی بھر سیکھنے سے متعلق پائیدار ترقیاتی مقصد(SDG4)کے حصول کی جانب پیش رفت کوتیز کرنے کی کوششوں میں شامل ہونے اور خواندگی کے کردار پر غور کرنے کا ایک موقع ہوگا۔زیادہ جامع،پرامن،انصاف پسند اورپائیدار معاشروں کی تعمیر میں ایسا کرنے سے، یہ خواندگی اور ترقی کے دیگر شعبوں کے مابین باہمی تعلقات کو قبول کرے گا۔ خواندگی ایسے معاشروں کی تشکیل کا مرکز ہے، جبکہ ترقی کے دیگر شعبوں میں پیشرفت لوگوں کی خواندگی اور اعدادوشمار کی مہارت کوحاصل کرنے، استعمال کرنے اورمزید ترقی میں دلچسپی و حوصلہ افزائی پیدا کرنے میں معاون ہے۔
مادرِ وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اطمنان بخش جواب نہیں مل رہے وہاں شرح خواندگی بڑھانے میں تمام اداروں کے نتائج اہداف کے منافی ہیں۔ابھی اسی سال کے آغاز میں اتحادی حکومت کے وزیر تعلیم کو افسرشاہی نے ایک عجیب اعلان کرنے پر مجبور کردیا جس کے نتائج وسائل کی بندربانٹ اور خردبرد کے علاوہ کچھ نا تھا۔ 30جون 2023کو جس حکومت کی تمام مشینری نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آوٹ آف اسکول بچوں کی تعداد کو صفر کرنا تھا اب وہ تمام ادارے قوم کے سوالوں کا جواب دینے سے گھبرا رہے ہیں۔کروڑوں روپے کی درسی کتب اس مہم کے لئے خصوصی طور پر نیشنل بک فاو¿نڈیشن سے چھپوائی گئیں جو آج بھی مختلف دفاتر میں ردی ہونے کا انتظار کررہی ہیں۔اسی طرح 50ہزارسے زائد آوٹ آف سکول بچوں کا اندازہ وزارت کے ڈیش بورڈ پر 60ہزارسے زائد داخلے کے ساتھ نئے سوال پیدا کرنے لگا۔نیشنل کمیشن فار ہیومن ڈویلپمنٹ اور نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی شاہ سے بڑھ کروفاداری کا ثبوت دیا اور انوکھے انداز میں نمبر گیم میں حصہ لیا۔یہ تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شرح خواندگی بڑھانے کی پھرتیاں دیکھانے کا ٹریلر ہے فلم ابھی باقی ہے۔ادھر سندھ کے سیکرٹری تعلیم کا ایک نجی ٹی وی کوحالیہ انٹرویو سیلاب زدگان علاقوں میں طلبہ کی محرومیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے یہی حالت دیگر علاقوں کی ہے۔ معاشی طور پر پریشانیوں میں جھکڑا ہواملک ہر گزاس طرح کی مالی بدعنوانیوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ ہم یہ بات دو دہائیوں سے ہر فورم پر کررہے ہیں کہ خدارا قوم کے ساتھ مذق کرنا بند کریں حالات کو اس نہج پر جن اداروں نے پہنچایا ہے ان پرانحصاراور خرچ کرنا فلفور بند کیا جائے۔ ان کی کارکردگی عالمی اداروں کے معاہدوں اور اعلانات کے مطابق ہونا تو دور کی بات قومی تقاضوں کے بھی ہمیشہ برعکس رہی۔اتحادی حکومت کے آخری ایام میں وفاقی وزیر برائے تعلیم نے خود تسلیم کیا کہ ہمارے کان غلط بھرے گئے۔لہذا حقیقی اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد اور موثرحکمت عملی آج بھی اہداف کے حصول کو ممکن بنا سکتی ہے۔ہم اگر اپنے ریجن میں دیکھیں تو شاید ہی کوئی ملک ایسا ہوجس نے اپنے خواندگی کے اہداف کو حاصل کرنے میں اس طرح کی ناقص پالیسیوں کا نفاذ اپنا ایجنڈا بنایا ہو۔ہندوستان اور بنگلادیش تو پہلے ہی تیزرفتار منصوبوں کے ذریعے ہمیں پیچھے چھوڑ چکے تھے اب دیگر ممالک نے بھی سمت درست کرکے رفتار تیز کرتے ہوئے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کہ انتہائی تشویش ناک ہے۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر مقررکردہ ہمارے لئے شرح خواندگی کے اہداف کا حصول اتنا بھی مشکل نہیں جتنا ہماری تعلیمی افسرشاہی نے بنایا ہوا ہے اس کے لئے آج عالمی یومِ خواندگی پر ہمیں کچھ ایسے عملی اقدامات کو تمام حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر اٹھانا ہوگا جن کے نتائج اعدادوشمار کا ہیر پھیر نہیں ہونا چاہیے جن کو ڈونرز کے ساتھ فوٹوسیشن اور فائلوں کا پیٹ بھرنے تک محدود نہ ہو بلکہ پاکستان کی ہرگلی، محلے، گاو¿ں، قصبے،شہر،ضلع،ڈویڑن،صوبے اور وفاق میں مربوط رابطے کا نیٹ ورک ہونا چاہیے۔ آج بھی کوئی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہمیں اپنے سفر کا آغاز اخلاص کے ساتھ کرنا ہوگا ایسے افراد اور تنظیموں کی کمی نہیں جن کی اپنی مددآپ کے تحت کامیاب مثالیں کئی دہائیوں سے قوم کے سامنے ہیں ان کے درمیان ذاتی پسند نا پسند سے بالا تر ہوکر مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل ہی اہداف کے حصول میں معاون ہوسکتی ہے۔
آوٹ آف سکول بچوں کے نام پر وسائل میں ریکارڈ خرد برد فرانزک آڈٹ کا تقاضا کرتی ہے۔ اعدادوشمار کا ہیر پھیر قومی تعلیمی اہداف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تمام حقیقی اسٹیک ہولڈرز اس تحریک کو اپنا کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ وفاقی نظامت تعلیمات تین دہائیوں سے اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے جس کے پیدا کردہ گیپ کو اسلام آباد میں کم آمدنی والے نجی تعلیمی اداروں نے اپنی مدد آپ کے تحت پورا کیا ہے جن کی پروموشن کو جان بوج کر نظر انداز کیا جارہاہے۔علاوہ ازیں 18ویں ترمیم کے باوجودایک درجن کے قریب نام نہاد خواندگی کے چیمپئن ادارے وسائل کو ضائع کر کے کارکردگی کو صرف فائلوں میں ہی دیکھاپارہے ہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی جو 2006 میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے معرضِ وجود میں آئی جو 2013میں ایکٹ آف دی پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بھی بن گیا اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بغیر 2016میں متعارف ہونے والے پیرا رولز اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2018 میں سٹرائیک ڈاو¿ن کردئیے تھے۔عدالتی حکم کے باوجود رولز کا آج تک نوٹیفائی نا ہونا بہت سارے سوال پیدا کررہا ہے جبکہ دوسری جانب پیراسے الحاق رکھنے والے نجی تعلیمی ادارے آج بھی وفاقی نظامت تعلیمات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت معیاری تعلیم فراہم کرتے ہوئے ناصرف حکومت کی ایک ایک پینی کو بھی بچارہے ہیں بلکہ کروڑوں روپے رجسٹریشن کی مد میں پیرا فنڈ میں جمع کرواتے ہیں۔ ہمارا یہ دیرنہ مطالبہ ہے کہ آوٹ آف سکول بچوں اور خواندگی کے نام پر طرح طرح کے پراجیکٹس کو فلور بند کرکے کم آمدنی والے نجی تعلیمی اداروں کی معاونت سے ہر بچے پر تعلیم کے دروازے کھولے جائیں۔ مثال موجود ہے کہ ہم نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہر یونین کونسل کی ہر وارڈ میں مقامی نمائندوں،آئمہ اکرام اور سول سوسائٹی کے باہمی اشتراک سے اہداف کے حصول کو ممکن بنایا ہے۔