عمل ہی عوام کا اعتماد حاصل کرسکے گا ، طفل تسلیاں نہیں

 امیر محمد خان 
عمل ہی عوام کا اعتماد حاصل کرسکے گا ، طفل تسلیاں نہیں
جب تک منتخب یا نہ ہونے والے انتخابات کیلئے لائے گئے نگران ہوں عوام کو سچائی نہیں بتائیں گے عوام کے غصے اور غضب سے نہیں بچیں گے ، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر خداناخواستہ کسی کو کینسر ہوجائے تو مریض سے خبر پوشیدہ نہ رکھی جائے موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں مگر موذی بیماری کے پیش نظر وہ اپنے بچے ہوئے محدود وقت کا اپنی ترجیحات کی مطابقت میں بہتر اہتمام کرسکے۔ہماری قوم پر سب سے بڑا ظلم بظاہر امیدیں بانٹنے والوں نے ڈھایا ہے۔ اندرونی حالات کا علم حکمرانوں کو بہت بہترین انداز میں ہوتا ہے مگر ہمارے زعما ءجنہیں حالات ٹھیک کرنے کی ذمہ دی گئی ہے یا دی جاتی ہے وہ طفل تسلیاں دیکر عوام کو گمراہ کرتے ہیںاور جب سبز باغ کے خاب ٹوٹتے ہیں تو پھر عوام کے پاس سسٹم کو گالی دینے، اسکے خلاف مظاہرہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیںہوتا ۔ذمہ داروںکو ئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ امید کے نام پر طفل تسلیاں دیتے ہوئے قوم کو غلط فہمیوں کا شکار رکھیں کہ تم بہت عظیم ہو ، بد قسمتی سے نگراںبھی اب نام نہاد جمہوریت پسندوں اور منتخب لوگوںکو صرف تسلیاںدیکر گزار کرنا چاہتی ہے ، وزیر اعظم دو ٹوک بات کرنے والے لگتے ہیں مگر وہ عوام کو درس دینے کے بجائے اقدامات بھی کریں ، پہلے بھی لکھنے کی جسارت کی تھی مفت کی بجلی خود اشرافیہ جو لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں کیوں بجلی کا بل ، نہیںدیتے ، کیوںپیٹرول انکے لئے مفت ہوتا ہے ؟ ۔ بجلی کی کمپنیاں تو بجلی کی فراہمی کے مصارف لینگی ۔مگر مجھے ملنے والی مفت بجلی حکومت کی غیر قانونی مہربانی تو ہے بجلی کی کمپنیاں عوام پر بے جا بوجھ مختلف مد میں ڈالکر اپنی رقم کھری لیتی ہیں اور تیس ہزار پر پچاس ہزار کے نام پر سابقہ بقایا جات مفت خوروں کو فراہم کردہ بجلی کے مصارف ہوتے ہیں ان مفت خوروں میں اشرافیہ ہی نہیںوہ بھی آتے ہیں جو کنڈے لگاکر رضاکارآنہ طور پر اپنی بجلی کو مفت تصور کرتے ہیں آج سے نہیں ہماری معیشت کا مداوہ کرانے والی IMF اس طرف بارہا اشارہ کرچکی ہے کہ مراعات یافتہ لوگوںکی دی گئی مراعات ختم کی جائیں تاکہ عوام کو ریلیف حاصل ہو ،انکی بات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے نگراںحکومت IMF کے پاس دوخواست لیکر چلی گئی کہ ہمیںعوام کو ریلیف دینے کیلئے بجلی کے بلوںپر قسطیں متعین کرنے دیں آئی ایم ایف میں بچے نہیں بیٹھے جو اصل بات نہ سمجھیں جسکی نشاندہی وہ پہلے ہی کرچکے ہیں اور ہم اشرفیہ سے ”پنگا “لینے کو تیار نہیں ۔ جن ترقی پذیر ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف سے 1986تا 2016کے دوران قرضہ لیا ان کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ ان ممالک کے عوام بنیادی اصلاحات پر پابندی کے زیر اثر اکثریت میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور بنیادی سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ارباب اقتدار اور پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا اوراپنی توانائیاں اس بات پر صرف کرنا ہوں گی کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے باہر آنا ہے۔ مہنگی بجلی کے منصوبوں سے کیسے جان چھڑانی ہے، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے لانا ہے، بیمار صنعتوں کی بحالی اور عام آدمی کی زندگی میں کیسے آسانیاں لائی جاسکتی ہیں۔ ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہوئی اور اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔اسپر ہمارے نگرانوں کی جانب سے بھی کوئی آواز نہیں آرہی مہنگائی کے جن پر قابو پانے کے حوالے سے کوئی اچھی خبر دور دور تک سنائی نہیں دے رہی۔ بجلی کے بلوں نے عوام کا ذہنی سکون چھین لیا ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے ان کے صبر و ہمت کی رہی سہی کسر نکال دی ہے، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور بھی بے لگام ہیں۔ دکاندار من مانے نرخوں پر اشیا فروخت کر رہے ہیں۔ عوام کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں مگرمہنگائی پر کنٹرول کرنے میں حکومت بے بس نظر آتی ہے شہروں اورقصبوں میں”بجلی کا بل دیں یا روٹی کھائیں“ کے نعرے پہ مظاہرے شروع ہو چکے ہیں، قوم کو یہ بھی تو بتایا جائے کہ بجلی چور کون ہیں، کتنے بند کارخانوں کو کیپسٹی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں، ٹیکس نادہندوں کا بوجھ بجلی کے بلوں میں متعدد ٹیکسوں کی صورت کیوں عوام پر لادا جارہا ہے اور بجلی کمپنیوں کے ساتھ یہ معاہدے جس اسپیڈ کے ساتھ کیے گئے تھے، اُن سے بھی تو کوئی حساب کتاب لیا جائے۔معیشت سنبھل نہیں رہی اور نہ موجودہ سنگین معاشی بحران کا حل آئی ایم ایف کے کِرم خوردہ نسخوں کے پاس ہے۔ویسے اگر آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سبسڈی غریبوں کو امیروں کو نہیں تو اس میں کیا غلط ہے، بجلی ، پیٹرول اورعوام کی تنگ دستی کا شور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس تک جاچکا ہے ، چیف جسٹس نے اس بات پر ریمارکس تو دے دئے جو سب کے علم ہے کہ نوجوان طبقہ ہو یا کسی عمر کافرد ملک کی معاشی ابتری اور اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے روزگار اور بہتر مستقبل کی خاطر ملک سے باہرجا رہا ہے مگر عدالت کی تمام کاروائی پڑھی اس میں یہ کہیں لکھا نہیں نظر نہیں آیا کہ ہمارے قانون کے رکھوالے نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کو یہ کہہ کر ریلیف دے دیتے کہ جنہیں مفت بجلی ، مفت پیٹرول کی سہولیا ت لاکھوںروپے تنخواہ لینے کے بعد بھی دی گئی ہیں وہ مفت بجلی نہیں لینگے بلکہ اپنی حلال کی تنخواہ سے ادا کرینگے ۔ انکے اس اقدام سے شائد حکومت کو ڈھارس و حوصلہ ملتا اور بقیہ اشرافیہ کی مفت بجلی خوری بند کردیتے یا عدالت عالیہ یہ حکم صادر کرتے ہوئے حکومت کومجبور کرتی کہ تمام بجلی کے مفت خوروں جنکااربوں روپیہ بجلی کا بل حکومت سے کررہی ہے انکی یہ مراعات بند کی جائیں، یہ مطالبہ کہ کرپشن کے تمام راستے بند کئے جائیںیہ تو ستر سالوں سے کوئی نہ کرسکا ۔ پہلے ایک وزیراعظم بنا تو غریبوں کے دکھوں اور روٹی کی محرومی کے سوال پر ہمدرد بنتے ہوئے یوں واویلا کرتا کہ میرے ہم وطنو میں تمہیں سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے اپنے کپڑے بیچ دوں گا، اگر مراد جائیداد تھی تو وہ کسی شخص نے بکتی نہ دیکھی ۔لگتا ہے کہ حکومت کو معیشت کے سنبھالے کیلئے پھر اوﺅرسیز پاکستانیوںکی جانب رخ کرنا پڑے گا ، جنکے لئے ایک نہ سمجھنے والی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے کہ 50ہزار ڈالر سالانہ رقم بھیجنے والے کو ڈائمنڈ کارڈ دیا جائے گا ، اسکے صلے میں ملنے والی مراعات ملاحظہ ہوں، جسکی اہم بات ”غیر ملکی ممنوع ہتھیار کا لائیسنس “واہ کیا مراعات ہیں، کوئی انہیں بتائے کہ بیرون ملک ذرمبادلہ کی مشینیںامن پسند لوگ ہیں انہیںمشین گنزنہیں چاہئیں ۔ یہ تو وہی بات ہوگئی کہ کتابیںبیچوں اور ہتھیار خریدو۔ بقیہ رہی مراعات سفارت خانوں ، اور قونصل خانوں میں ترجیحی بنیادوں پر رسائی تووہ تو میں گزشتہ تیس سالوں سے جدہ قونصلیٹ اور ریاض سفارت خانے میں دیکھ رہا ہوںجسکی حکومت ہوتی ہے اسکی کے چاہنے والے ہی تقریبات میں اگلی نشستوںکا حقدار ہوتے اہم تقریبات ، وی آئی پی شخصیات کے آنے پر دعوت نامے بھی انہیں ہی دئے جاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے ”لالی پاپ “کی خواہش نہیں رکھتے ۔ پاکستا ن میں رہنے والے انکی عزیز و اقارب محفوظ نہیں انکی جائیدادوں ، مکانوںپر قبضہ مافیاں راج کرتی ہے ، کوئی ایسا نظام نہیں کہ بغیر رشوت دئے وہ قبضے چھڑائے جائیں ۔


 

 
 

ای پیپر دی نیشن