دم بدم، رواں دواں دنیاوی خواہشات

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
”حضرت جابرؓسے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت پر جن بلاو¿ں کے آنے سے ڈرتا ہوں ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں (1) ہوٰی اور (2) طوُلِ اَمَل ہیں (ھوٰی سے مراد یہاں یہ ہے کہ دین و مذہب کے بارے میں اپنے نفس کے رجحانات اور خیالات کی پیروی کی جائے اور طولِ امل یہ ہے کہ دنیوی زندگی کے بارہ میں لمبی لمبی آرزوئیں دل میں پرورش کی جائیں۔ رسول اللہ نے ان دو بیماریوں کو بہت زیادہ خوفناک بتلایا اور آگے اس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی) کہ ھوٰی تو آدمی کو قبول حق سے مانع ہوتی ہے (یعنی اپنے نفسانی خیالات و رجحانات کی پیروی کرنے والا قبول حق اور اتباع ہدایت سے محروم رہتا ہے) اور طول امل (یعنی لمبی لمبی آرزوو¿ں میں دل کا پھنس جانا) آخرت کو بھلا دیتا ہے اور اس کی فکر اور اس کے لیے تیاری سے غافل کر دیتا ہے۔ (اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا) یہ دنیا دم بدم چلی جا رہی ہے، گزر رہی ہے (کہیں اس کا ٹھہراو¿ اور مقام نہیں) اور آخرت (ادھر سے) چل پڑی ہے چلی آرہی ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ بچے ہیں یعنی انسانوں میں کچھ وہ ہیں جو دنیا سے ایسی وابستگی رکھتے ہیں، جیسی وابستگی بچوں کو اپنی ماں سے ہوتی ہے اور کچھ وہ ہیں جن کی ایسی ہی وابستگی اور رغبت بجائے دنیا کے آخرت سے ہے۔ پس اے لوگو! اگر تم کر سکو تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اس کے بچے نہ ہو (بلکہ اس دنیا کو دارالعمل سمجھو) تم اس وقت دارالعمل میں ہو، (یہاں تمہیں صرف محنت اور کمائی کرنی ہے) اور یہاں حساب اور جزا سزا نہیں ہے اور کل تم یہاں سے کوچ کر کے دارآخرت میں پہنچ جانے والے ہو اور وہاں کوئی عمل نہ ہو گا (بلکہ یہاں کے اعمال کا حساب ہو گا اور ہر شخص اپنے کیے کا بدلہ پائے گا)۔“ (بیہقی فی شعب الایمان)
    رسول اللہ نے اس حدیث میں امت کے بارے میں دو (2) بڑی بیماریوں کا خوف اور خطرہ ظاہر فرمایا ہے اور امت کو ان سے ڈرایا اور خبردار کیا ہے۔ ایک ہوی اور دوسرا ط±ولِ اَمَل۔ غور سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے۔ جن لوگوں میں خیالات اور نظریات کی گمراہی ہے وہ ہوٰی کے مریض ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ طول امل اور حب دنیا کے مرض میں گرفتار اور آخرت کی فکر اور تیاری سے غافل ہیں جس کا علاج یہی ہے جو حضور نے حدیث کے آخر میں بیان فرمایا۔ یعنی ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور صرف چند روزہ ہے اور آخرت ہی کی زندگی اصل زندگی ہے اور وہی ہمارا اصل مقام ہے۔ جب یہ یقین دلوں میں پیدا ہو جائے گا تو خیالات اور اعمال دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔
انسان کی سب سے بڑی بدبختی اور سینکڑوں قسم کی بدکاریوں کی جڑ اور بنیاد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے فکر اور بے پرواہ ہو کر زندگی گزارے اور اپنی نفسانی خواہشات اور اس دنیا کی فانی لذتوں کو اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لے۔ اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ آنکھوں کے سامنے ہے اور اللہ تعالیٰ اور آخرت آنکھوں سے اوجھل ہیں اس لیے انسانوں کو اس بربادی سے بچانے کا راستہ یہی ہے کہ ان کے سامنے دنیا کی حقیقت اور بے ثباتی کو آخرت کی اہمیت اور برتری کی قوت کے ساتھ پیش نظر رکھا جائے اور قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی اور اعمال کی جزا و سزا کا اور جنت و دوزخ کے ثواب و عذاب کا یقین ان کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جائے۔ حضور کے اس خطبہ کا حاصل اور خلاصہ یہی ہے اور جیسا کہ عرض کیا گیا آپ کے اکثر خطبات اور مواعظ میں یہی بنیادی مضمون ہوتا تھا۔
تنبیہ:یہ بات بڑی خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کہ دینی دعوت اور دینی وعظ و نصیحت میں دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی اور آخرت کی اہمیت کا بیان اور جنت و دوزخ کا تذکرہ جس طرح اور جس ایمان و یقین اور قوت کے ساتھ ہونا چاہیے ہمارے اس زمانے میں اس کا رواج بہت کم ہو گیا ہے۔ گویا نہیں رہا ہے اور دین کی تبلیغ و دعوت میں بھی اس طرح کی باتیں کرنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے جس قسم کی باتیں مادی تحریکوں اور دنیوی نظاموں کی دعوت و تبلیغ میں کی جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کی ان خوفناک بیماریوں سے حفاظت فرمائے۔(آمین یارب العالمین

ای پیپر دی نیشن