یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے لیے ہرروز،روزِعیداورہرشب ،شبِ برات ہواکرتی تھی۔ہم سرکاری ٹی وی چینل پربیک وقت نسیم حجازی کے ناولوں کے مرکزی خیال پرمبنی ڈرامے اور وحیدمراد اوررانی بیگم کی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔یوں ہم سقوط ڈھاکہ کے بعدکی متروک نسلوں کے فرزند بیک وقت رومانوی بھی تھے اور مجاہدبھی۔انھی دنوں متبادل آپشن نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی اشیا اعصاب پرسوارہوتی چلی گئیں۔ میں نے انھی دنوں منیرنیازی کو مختلف ادبی پروگراموں میں دیکھا،ایک مخمورآوازاور خوب صورت شکل والا انسان۔سب سے الگ تھلگ اورجدا،اپنے ہی خیالوں میں گم ایک محبوب شخص،موڈ ی اورمتلون مزاج۔
یہ کیسا نشہ ہے ، میں عجب خمارمیں ہوں
توآکے جاچکاہے ،میں انتظارمیں ہوں
انھی دنوں کی بات ہے، کانوں میں کہیں سے یہ آواز پڑی کہ منیرنیازی کا تعلق ہمارے شہرسے ہے۔کالج میں پہنچا تو نیازی صاحب کا تذکرہ شہرکے احباب سے بھی سنا،کوئی پکارا” نیازی صاحب کو قیام پاکستان کے بعدصدربازارمیں خوشبویات کی ایک دکان الاٹ ہوئی۔انھوں نے ساری خودہی استعمال کرلی“۔کسی نے کہا”نیازی صاحب کی زندگی میں سوتیلے رشتوں کا کرب پوری شدت کے ساتھ موجود ہے“۔میرے پڑوس میں ان کے چچازادبھائی رہتے تھے (ان کی رنگت ذرا سانولی نہ ہوتی تومنیرنیازی کے جڑواں بھائی لگتے) ،ایک دن میرے استفسار پرکہنے لگے”ہاں یاراوہ بندہ تواچھا نہیں تھا پر سنا ہے شاعر اچھاتھا“۔ اتنی سخت رائے مجھے بالکل اچھی نہ لگی۔ میرے کالج کا زمانہ تھا،شاید 1995ءکی بات ہے، ان دنوں نیازی صاحب کے شعری مجموعے تسلسل سے شائع ہورہے تھے۔میں نے اپنے جیب خرچ میں سے رقم پس اندازکرکے انکی کتابیں خریدی تھیں۔ حیرت اورمستی کی جملہ کیفیات میں ڈوب کرتخلیق کی گئی شاعری۔اسی دوران میں ایک روزیہ خبرسنی کہ وہ شہرمیں ہوشیارپور کے پٹھانوں کی ایک انجمن کے افتتاحی جلسے میں مہمان کے طور پر تشریف لارہے ہیں۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر قمرالزمان خان کا نیازی صاحب سے خصوصی تعلق تھا۔انھوں نے ایک شام انھیں کالج میں مدعوکیا۔یہ نومبرکی ایک خنک شام تھی، کمیٹی روم میں نیازی صاحب کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے نیازی صاحب کی شاعری پرمختصرسامضمون پڑھا،مجلس ِتقریبات کے انچارج پروفیسر سیدریاض حسین زیدی تھے،انھوں نے بھی نیازی صاحب کے فن اورشخصیت پر شاندارگفتگو کی۔تقریب ختم ہوئی تو سب لوگوں کوپرتکلف چائے کیلئے روزگارڈن کا رخ کرنے کی دعوت دی گئی۔نیازی صاحب نے شفقت سے میرے گالوں کوسہلاتے ہوئے کہا۔”منڈیا! تیرا مضمون چنگاسی،بس توں جہڑے شاعراں نال مینوں رلایا اے،مینوں اونہاں نال اختلاف اے“۔(لڑکے! تمھارا مضمون اچھا تھا۔البتہ تم نے جن شعرا کے ساتھ میرا موازنہ کیا ہے ،مجھے ان سے اختلاف ہے)یہاں واضح رہے کہ میں ان کی شاعری کا تقابل فراق ،فیض ،ندیم اور فراز سے کیاتھا۔یہ نیازی صاحب کی خودپسند شخصیت سے میرا پہلا تعارف تھا۔دوسری ملاقات ملتان کے ایک نجی کالج کے مشاعرے میں ہوئی۔میں اس کالج میں اردو پڑھاتا تھا،اس مشاعرے کاانتظام وانصرام میرے ذمے تھا،کالج کے اساتذہ کی خواہش تھی کہ عکس وآہنگ کی دنیا میں مقبولیت کی وجہ سے امجداسلام امجدکومدعو کیا جائے، میں اس بات کے حق میں نہیں تھا۔امجداسلام امجدسے رابطہ کیا تو انھوں نے مشاعرے میں آنے کے لیے کچھ اس انداز میں گفتگو کی کہ شاید کراچی کا کوئی میمن یاچنیوٹی شیخ بھی ان امور پرایسی دسترس نہیں رکھتاہوگا۔ منیر نیازی سے رابطہ ہوا،تو انھوں نے مشاعرے میں بطور صدر شرکت کیلئے بڑی سادگی سے دوشرط پیش کیں۔ان کاکہنا تھا کہ مشاعرے میں لاہور سے ملتان آتے ہوئے گاڑی میں میرے ساتھ کوئی شاعرنہ ہواور دوسرا مشروبِ مغرب کا انتظام ہوناچاہیے۔باقی توسب ٹھیک تھا لیکن ام الخبائث والی فرمائش اختیار سے باہر تھی۔نیازی صاحب آئے ،مشاعرہ صبح تک جاری رہا۔
مشاعرے میں شریک شعرا میں اسلم انصاری، عاصی کرنالی،ارشدملتانی، حسین سحر، اقبال ارشد، محمدامین، عباس تابش،سعود عثمانی، انجم سلیمی، شناور اسحاق، ارشدنعیم، شہاب صفدر، شاکرحسین شاکر، رضی الدین رضی،شفیق آصف اوراختررضاسلیمی کے نام یاد رہ گئے ہیں۔مشاعرے کے دوران نیازی صاحب کرسی پر مبہوت ہوکر بیٹھے رہے۔ان کے اس انداز پر ڈاکٹر ارشد ملتانی مرحوم نے پھبتی کسی تھی کہ” لگتا ہے کسی نے نیازی صاحب کی بجائے ان کی تصویر کرسی پہ رکھ دی ہے“منیرنیازی نے بظاہراس جملے پرخاموشی اختیار کی لیکن بعد میں مجھ سے کہنے لگے”ڈاکٹرکیہہ کہندا سی(ڈاکٹرکیاکہتاتھا؟)“ میں نے جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیارکی۔نیازی صاحب سے اس روز طویل مکالمہ ہوا۔ رخصت کرتے ہوئے ان سے مصافحہ کیا تو کہنے لگے” کوئی اورہوتاتومیں اس سے سلام بھی نہ لیتا کہ کہیں میری انگوٹھیاں ہی نہ اتار لے “۔اس دن وہ مجھے بڑے نازونعم کے پلے ہوئے ایک بانکے،چھبیلے بلکہ چھیل چھبیلے نوجوان لگے۔ ایک اور بات جس سے مجھے منیر نیازی کی عمدہ یادداشت کا پتہ چلا۔ہمارے جاننے والوں میں ایکب نے انھیں دیکھا اور دور سے بولے:” اوئے سعید! کیا حال اے تیرا؟“ میرے لیے یہ بڑی حیرت کامقام تھا۔نیازی صاحب کی یادداشت کمال کی تھی۔لاہور میں ان سے آخری ملاقات فرتاش سیدکے ہمراہ ہوئی۔دستک سن کر باہر آئے توچہرے پر ناپسندیدگی کاتاثرتھا۔ہمیں دیکھ کرہلکی سی مسکان لبوں پرآئی۔ہمیں مہمان خانے میں بٹھا کر بولے۔ ”تسیں بندے چنگے اونئیں تے تہانوں چک کے باہر سٹ دیندا“۔(تم اچھے لوگ ہوورنہ تمھیں اٹھاکرگھرسے باہرپھینک دیتا)۔اس روز نیازی صاحب نے منٹگمری(ساہیوال) میں قیام کے دنوں کی یادیں چھیڑیں۔وہ سفید ململ کے کرتے اورپاجامے میں اردو شاعری کے دیوتا لگ رہے تھے۔واقعی نیازی صاحب خداﺅں میں مسلمانوں کے خداکومانتے تھے لیکن دیوتاﺅں میں صرف اپنی ذات کے پجاری تھے۔وہ شعروسخن کی دنیامیں ایک الگ راستے کے مسافرتھے۔
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتاگیا اور دن ہواہوتے گئے
٭....٭....٭