کیا بھارتی معاشرے نے بطور نظام مسلمانوں سے نفرت اور اس کے اظہار کے لیے ہر طرح کے تشدد کو قبول کرلیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اس وقت بھارت کے دانشوروں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوﺅں میں زیر بحث ہے۔ بھارت میں اقلیتوں پر تشدد خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت میں متحرک بہت سی ہندو انتہا پسند تنظیموں کا قیام صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کی بنیاد پر وجود میں آیا اور اپنے اسی نظریہ کی وجہ سے وہ اپنا وجود آج تک برقرار رکھے ہوئے ہے یہ جانتے ہوئے کہ جب تک وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی کو جاری رکھیں گے تو قائم رہیں گے۔ کچھ ہندو انتہا پسند تنظیمیں برطانوی ہند کے بٹوارے سے قبل ہی تشکیل پا چکی تھیں ان کا مقصد ہندو دھرم کی تعلیمات کے نام پر غیر ہندوﺅں خصوصاً مسلمانوں سے بھارت کو پاک کرنا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل بھی برطانوی ہند میں ہندو مسلم فسادات برپا ہوتے لیکن ان فسادات نے تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مسلم کش فسادات کا روپ دھار لیا۔ ہر ایک دو برسوں بعد کسی بھارتی شہر میں ہندو مسلم تصادم ہوتا جسے بڑی خوبصورتی سے ہندو انتہا پسند مسلم کش فساد میں بدل دیتے۔ ان فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ان کے گھروں کو لوٹ مار کے بعد آگ لگا دی جاتی۔ پولیس ہندو بلوائیوں یا مسلمانوں کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کی بجائے مزاحمت کرنے والے مسلمانوں کو گرفتار کرتی جن کے خلاف گواہیاں دینے کے لیے ہندو بڑی تعداد میں دستیاب ہوتے جبکہ مسلمانوں کو مارنے والوں کے خلاف نہ پولیس حرکت میں آتی نہ ہی عدالتیں انھیں انصاف فراہم کرنے پر تیار ہوتیں۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف گزشتہ 7 دہائیوں سے پھیلائی جانے والی نفرت کی انتہا گزشتہ ماہ اگست کی 27 تاریخ کو بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں نیہاپبلک سکول کی تیسری جماعت میں ٹیچر نے 7 برس کے مسلمان بچے کو اپنے ساتھ کھڑا کیا اوربچے کو محمڈن (مسلمان) قرار دیتے ہوئے جماعت کے دیگر طالب علموں کو حکم دیا کہ وہ باری باری آئیں اور مسلمان بچے کے چہرے پر تھپڑ رسید کریں۔ خاتون ٹیچر تریپتاتیاگی نے اس پر بس نہیں کی بلکہ مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کی بھڑاس نکالنے کے لیے اس نے ایک بچے کے ہاتھ میں موبائل فون تھمایا تاکہ وہ مسلمان بچے کو پڑنے والے تھپڑوں کی عکس بندی کر سکے۔ مسلمان بچہ روتے ہوئے اس قدر خوف کے عالم میں تھا کہ اس نے اپنا چہرہ بچانے کے لیے نہ تو چہرے کو جنبش دی نہ ہی اپنے بازو یا ہاتھ آگے کیے وہ خاموش کھڑے رہ کر آنسو بہاتا اور سسکیاں لیتا رہا ۔ مسلمانوں کے خلاف بغض کی انتہا کرتے ہوئے ٹیچر نے مذکورہ ویڈیو وائرل بھی کر دی جو چند ہی منٹوں میں صرف بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں وائرل ہوگئی اور عالمی سطح پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا موضوع بن گئی۔ امریکہ میں ٹیلی ویژن چینلوں نے مسلمان بچے کو ا س کے ساتھی طالب علموں کی طرف سے مارے جانے والے تھپڑ پر مبنی ویڈیو کو بار بار چلایا اور ساتھ ہی نریندر مودی کے امریکی دورے کے دوران بھارت میں مسلمان اقلیت پر ہندو انتہا پسندوں کے تشدد کے حوالے سے ایک صحافی کی طرف سے پوچھے گئے سوال پر نریندر مودی کا جواب بھی ساتھ ہی نشر کیا جاتا رہا جس میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ’بھارت میں ہندو اکثریت ہو یا دیگر مذاہب رکھنے والی اقلیتی سب ایک برابر ہیں، بھارتی آئین و قانون میں شہریوں کے درمیان امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں۔‘
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے ممکنہ احتجاج سے بچنے کے لیے ضلع مظفر نگر کی پولیس نے نیہا پبلک سکول کو فوری طور پر بند کرادیا۔ تاثر دیا گیا کہ تیسری جماعت کی ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ دوسرے روز مظفر نگر میں پولیس کے سربراہ کی جانب سے بیان جاری کرایا گیا کہ بھارت میں اسکول ٹیچر کا طالب علم پر تشدد قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے اس لیے ٹیچر کے خلاف کسی طرح کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔ ساتھ ہی ٹیچر نے بیان دیا کہ مسلمان بچے کا والد خود سکول آیا تھا اس نے شکایت کی تھی کہ اس کا بیٹا پڑھتا نہیں، لہٰذا اسے اسکول میں سزا دی جائے۔ ٹیچر کا کہنا تھا کہ وہ ٹانگوں سے معذور ہے خود اٹھ نہیں سکتی اپنی اس مجبوری کے پیش نظر اس نے کلاس کے دو بچوں کو کہا کہ وہ بچے کو باپ کے حکم کے مطابق سزا کے طور پر ایک دو تھپڑ لگائیں۔ تاہم بھارت میں صرف مسلمان ہی نہیں بہت سے ہندو طبقات نے بھی معصوم بچے سے کلاس میں مسلمان ہونے کی بنا پر کیے گئے سلوک پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
اس مسئلے پر بھارت میں بہت سے ماہرین نفسیات نے نیہا پبلک سکول کی کلاس میں پیش آنے والی صورتحال کو بھارت کے مسلمان بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑنے والے منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اسے نریندر مودی کی مسلمان اقلیت کے خلاف 2014 ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد اختیار کی گئی ڈاکٹرائن کا نتیجہ قرار دیا جس نے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کا زہر گھول کر پورے بھارت کو مسلمانوں کے لیے جہنم بنا دیا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو شاید بھارت میں مسلمان کم سن بچے پر کیے تشدد کے مستقبل میں بھارتی مسلمانوں پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ نہ ہو لیکن اتر پردیش کی 2 کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں بسنے والے 20 فیصد مسلمان ضرور فکر مند ہیں کہ 8 ماہ بعد بھارت میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف فساد برپا کرنے کی کوئی نہ کوئی کوشش ضرور کی جائے گی جس کی آڑ میں بی جے پی 2024ءکے انتخابات میں اپنی جیت یقینی بناسکے۔
٭....٭....٭
نریندر مودی ڈاکٹرائن کے منہ پر زوردار طمانچہ
Sep 08, 2023