آج کے اس پ±ر فتن دور میں رزق حلال تلاش کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے اور بہت ہی کم لوگوں کو رزق حلال کی پہچان ہے۔ آج کل بس یہ ہی خیال کیا جاتا ہے کہ بس کمایا جائے جس طرح بھی مل جائے۔ حلا ل اور حرام کا خیال کبھی ذہن میں آتا ہی نہیں۔ مگر کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جو رزق حلال کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن بہت کم۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جو آدمی رزق حلال کی تلاش میں تھک کر شام کر لے وہ رات یوں گزارتا ہے کہ اس کی بخشش ہو جاتی ہے۔اور اس کی صبح یوں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ا س سے راضی ہو جاتا ہے۔ (احیا ءالعلوم )۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : ” اے ایمان والو! کھاﺅ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو. اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو “۔
اس آیت مبارکہ سے دو باتیں سامنے آتی ہیں. ایک یہ کہ عبادت کی طرح جب ضرورت محسوس ہو کھانا پینا بھی اہم فرض ہے کیونکہ اس پر تمام فرائض کی ادا موقوف ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ہمیشہ حلال اور پاک چیزیں کھانی چاہیں۔ تقوی کا مطلب یہ نہیں کہ اچھے کھانے چھوڑ دیں بلکہ تقوی کا معنی یہ ہے کہ حرام چیزیں چھوڑ دیں۔
ارشاد باری تعالی ہے : ” اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیے اور تمہیں خطبے میں کھڑا چھوڑ گئے۔ تم فرماﺅ وہ جو اللہ کے پاس ہے کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ کا رزق سب سے اچھا ہے “۔(سورة جمعہ)
ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ تجارتی قافلہ مدینہ منورہ پہنچا تو اس وقت دستور کے مطابق طبل بجا کر اس کے آنے کا اعلان کیا گیا۔ تنگی و گرانی کا زمانہ تھا ، مسجد میں موجود لوگوں نے خیال کیا کہ اگر ہم لیٹ ہو گئے تو سب مال فروخت ہو جائے گا۔ اس خیال سے تمام لوگ چلے گئے صرف بارہ لوگ مسجد میں رہ گئے۔ تو اس وقت اللہ تعالی نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ بعض لوگ نمازوں کے اوقات میں بھی رزق کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا کرنا سخت حرام ہے۔ بہترین رزق دینے والی ذات اللہ تعالی ہی کی ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے رزق حلال کی بہت تا کید فرمائی : حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کسی نے اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا ہو اور بے شک اللہ تعالی کے نبی حضرت داﺅد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی کمائی کھایا کرتے تھے “۔