معاف کیجئے …امین کنجاہی
a.amin1961@gmail .com
چھ ستمبر 1965ءکا دن ان عظیم لمحات کی یادگار ہے جب پوری قوم اپنی آزادی وطن عزیز کی سا لمیت اور دفاع کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کی راہ میں ڈٹ گئی تھی اسلامی جمہوریہ پاکستان امن و سلامتی کا علمبردار ہے اور دنیا کی تمام قوموں بالخصوص اپنے ہمسایہ ممالک سے اخوت ،بھائی چارے کی دوستانہ فضا میں امن چاہتا ہے لیکن اپنے اصولوں کے خلاف جن کی اساس انصاف اور رواداری پر ہے اس نے نہ کبھی سمجھوتہ کیا ہے اور نہ آئندہ کبھی کر سکتا ہے۔بر صغیر کی تقسیم کے موقع پر پنڈت نہرو نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان کیلئے متعین شدہ سرحدوں پر ردوبدل کر دیا۔ہندﺅں اور مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں زمین و آسمان کا فرق ہونے کے باوجود کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کیلئے مہاراجہ کشمیر سے ریاست کا بنگالی الحاق بھارت سے کروالیاعرضیکہ دھوکہ فریب،جعل سازی اور ہر مذموم ہتھکنڈے استعمال کرکے پاکستان کو روز اﺅل سے ہی کمزور اور ناپائیدار بنانے کی ہر کوشش کی گئی۔بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیااور ہمیشہ اسے پامال کرنے کے منصوبے بناتا رہا۔انہی منصوبوں کی تکمیل کے طور پر 6ستمبر 1965ءکو پاکستان کی سرحدوں پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔بین الا قوامی ضابطوں کو روند کر لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بزدلانہ حملہ کرتے وقت بھارت یہ بھول گیا تھا کہ سوئے ہوئے شیر کو جگانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔جنرل ایوب خان نے گرجدار آواز میں بھارتی حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دیا اور قوم کو دفاعی جنگ کیلئے آمادہ کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا''ہم وطنو!بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔پاکستان کے عوام جن کے دلوں میں لا الہ الا للہ کی صدائیں گونج رہی ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیںگے جب تک دشمنوں کی توپیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش نہیں ہو جاتیں''اس اعلان کے بعد ہر شخص بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے کمر بستہ ہو گیا۔پوری قوم وطن عزیز کے وقار اسکی بقاءو حفاظت اور ملت کی عزت و ناموس کی خاطر ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئی۔ولولہ انگیز قیادت نے ارض پاکستان کے محافظوں اور شہریوں کے حوصلے بلند کر دیئے جس کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ شہریوں نے بھی دشمن کو مار بھگانے میں اہم کردار ادا کیا۔شاعروں نے اپنے کلام سے محافظوں کے حوصلے بلند کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔گلی گلی،کوچے کوچے اور ہواﺅں کی لہروں پر یہ صدائیں گونج رہی تھیں''میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں۔جدھر نظراں پاویں ویری مار نساویں''ہر کوئی من تن دھن ،ملکی سلامتی پر قربان کرنے کیلئے بیتاب دکھائی دیتا تھا۔ملک کے اندر عوام دفاعی جنگ لڑ رہے تھے اور سرحدوں پر فوجی جوان دشمن کو بری طرح شکست دے رہے تھے۔دشمن نے لاہور پر قبضہ کی خوشخبری سنائی تھی مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ جہاں میجر عزیز بھٹی شہید جیسے مجاہد ہوں وہاں بھارتی بھگوڑے اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں۔جوانوں نے بی آر بی نہر کے پل کو ڈائنامیٹ کرکے نہ صرف دشمن کی پیش قدمی کو روک دیا بلکہ اسی کے علاقے میں بہت پیچھے تک دھکیل دیا۔اسی موقع پر میجر عزیز بھٹی نے شہادت پائی تھی۔سیالکوٹ کے محاذ پر مجاہدوں نے اپنے سینوں پر بم باندھے اور ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر دشمن کے حملے کو پسپا کر دیا۔بھارت نے جب اپنی فضائیہ کو جنگ میں جھونکا تو اسے پاک شاہینوں نے مفلوج کرکے رکھ دیا۔بری اور فضائی افواج کی طرح پاک بحریہ نے بھی قوم کو سربلند رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہوں نے بھارتی بحریہ کو سر اٹھاتے ہی کچل کر رکھ دیا۔ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں دنیا نے دیکھ لیا کہ ملک و ملت کی بقاءاور حفاظت پر قربان ہونے کے جذبہءشوق شہادت سے سرشار اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی قوم ہی سازوسامان اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود تاایزدی پر ایمان رکھ کر اپنے بڑے سے بڑے دشمنوں پر بھی غالب رہتی ہے۔جب بھارت کو ہر محاذ پر منہ کی کھانا پڑی تو آخر کار سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔59برس گزرنے کے باوجود 6ستمبر1965ءکی یادیں تازہ پھولوں کی طرح مہکتی ہیں۔یہ یادیں اسلئے شاداب ہیں کہ اس میں شہیدوں کے لہو کی مہکاریں شامل ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جوقومیں اپنے نصب العین کو فراموش کر دیتی ہیں ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ہمیں متحد و منظم دیکھ کر بڑی سے بڑی طاقت کو بھی ارض پاک کی طرف بری نظر سے دیکھنے کی جرات نہ ہو سکے گی۔