گلزار ملک
حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے چند اہم اقوال آپ فرماتے ہیں کہ آخری زمانے کے لوگ بھیڑیے ھوں گے اور حکمران درندے۔ درمیانی طبقہ کھا پی کر مست رھنے والے اور فقیر بالکل مردہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سچائی دب جائے گی جھوٹ ابھر آئے گا محبت صرف زبانوں تک محدود رہ جائے گی۔ اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رھیں گے۔ نسب کا معیار زنا ھو گا۔ عِفت و پاکدامنی نِرالی سمجھی جائے گی اور اِسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔
جی بالکل وطن عزیز میں ایسی ہی صورتحال پائی جا رہی ہے ہر طرف امن و امان کی پریشان کن صورتحال نے ہر شخص کا جینا مشکل کر دیا ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی ہر چیز کی بے برکتی پیدا کر رکھی ہے ہر کھانے پینے کی اشیاءغریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے ایسے بگڑے ہوئے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار سیاست دان ہیں جو بعد میں اس ملک کو لوٹنے کے لیے حکمران بنتے ہیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک جتنی بھی سیاسی پارٹیوں نے حکومت کی ان میں سے کوئی ایک بھی ملک کو قوم کے لیے خیر خواہ ثابت نہیں ہوا۔
اب تو ہمیں اس بادشاہ اور کمہار کی اشد ضرورت ہے یہ وہ بادشاہ ہے۔ جس نے ایک دن گدھوں کو قطار میں چلتے دیکھا تو کمہار سے پوچھا تم انہیں کس طرح سیدھا رکھتے ہو۔؟ کمہار نے جواب دیا کہ جو بھی گدھا لائن توڑتا ہے میں اسے سزا دیتا ہوں بس اسی خوف سے یہ سب سیدھا چلتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا کیا تم ملک میں امن قائم کر سکتے ہو۔ کمہار نے حامی بھرلی بادشاہ نے اسے منصب عطا کر دیا پہلے ہی دن کمہار کے سامنے ایک چوری کا مقدمہ لایا گیا کمہار نے فیصلہ سنایا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو اس کے بعد خود وزیر نے کمہار کے کان میں سرگوشی کی کہ جناب تھوڑا خیال کریں یہ اپنا خاص آدمی ہے کمہار بولا چور کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں اور سفارشی کی زبان کاٹ دی جائے۔ اور کہتے ہیں کمہار کے صرف اس ایک فیصلے کے بعد پورے ملک میں امن قائم ہو گیا ہمارے ہاں بھی امن قائم ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے چوروں کے ہاتھ کاٹنا پڑیں گے اور کچھ لوگوں کی زبانیں کاٹنا پڑیں گی اب دیکھنا یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتا ہے۔اگر آج ہم نے اس بات پر دھیان نہ دیا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ بلی اور چوہے کا کھیل ملک و قوم کے لیے بربادی کا باعث ثابت ہوگا۔