لقمان شیخ
روبرو
بازی گر معروف انڈین ادا کار شاہ رخ خان کی فلم ہے. اس فلم میں انکا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا تھا. '' ریس میں کوئی جیت جاتا تھا اور کوئی ہار جاتا ہے مگر اصل ونر وہ ہوتا ہے جو ہار کر بھی جیت جائے اور جو ہار کر جیتے اسے '' بازی گر کہتے ہیں. خان جب سے جیل میں قید ہیں وہ سیاست کی ہر بازی ایسے کھیل رہے ہیں جیسے بازی گر ہوں. انکے مخالفین انھیں جس قدر دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے دو گنا ابھر کر سامنے آتے ہیں. کالم نگارمحمد حنیف نے اپنے حالیہ کالم'' میں لکھاہے کہ وہ قید ہو کر بھی آزادی کی سرنگ کھود رہے ہیں جبکہ نواز شریف آزاد ہو کر بھی خود کو قید سمجھتے ہوں گے.حکومت تو بظاہر ن لیگ کی ہے مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ کون جیتا کون ہارا۔ ایک دو ماہ قبل عوام میں جا کر بجلی کے بلوں پر پروگرام کروانے کا موقع ملا. سینئر پر جب لوگوں سے حکومتی کارکردگی پر سوالات کیے تو عوام پھٹ پڑے. عوام نے ن لیگ کو چوری کی حکومت قرار دیا. اور حکومتی کارکردگی پر برس پڑے. اور کہا کہ اگر دوبارہ بھی انتخابات ہوئے تو خان ہی جیتے گا.عوام ابھی بھی عمران خان کے ساتھ ہیں. خان کا کہنا ہے کہ وہ غلامی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے.
آج بھی انکا جلسہ ہے اور عوام پورے ملک سے اس جلسے میں شرکت کریں گے. اسلام آباد انتظامیہ نے تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت تو دے دی ہے مگر دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے. ہو سکتا ہے اس جلسے کی اجازت اسی لئے دی گئی ہو کہ عوامی طاقت کا مظاہرہ جانچا جا سکے کہ عوام کس حد تک عمران خان کی کال کو لبیک کہتے ہیں.
وہ اپنے کارکنوں کو مسلسل یہی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ڈر اور خوف کے بت توڑ دیں اور حقیقی آزادی کے لیے باہر نکلیں. بانی پی ٹی آئی چونکہ عرصہ دراز سے قید ہیں تو انکی کوشش یہی ہو گی کہ وہ اپنا حق واپس لینے کے لئے عوامی جدوجہد کریں. حکومت کے خلاف دھرنے دیں. جلسے جلوس نکالیں. سسٹم کو نہ چلنے دیں.
دوسری جانب وفاقی اور پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ مہنگائی کو کم کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں. پنجاب حکومت نے بجلی کے بلوں پر آٹے میں نمک کے برابر ریلیف تو دیا مگر آئی ایم ایف نے ریلیف پر سوالات اٹھا دیے. وزیراعظم پاکستان شہباز اسی ماہ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں اور امریکہ سے اپنے معاملات ٹھیک کرنے کے خواہاں ہیں. اس کے بعد انکا پلان چین کے دورے کا ہے. یار لوگوں کا کہنا ہے آئندہ چند ماہ میں پاکستان کے لئے اچھی خبریں آئیں گئیں. ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہو گی معاشی حالات بہتر ہونگے. مہنگائی کی شرح میں کمی ہو گی. اگر عدلیہ کے معاملات کی بات کی جائے تو یار لوگ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں توسیع کے امکانات بھی ہیں اور نئے 23ججز کو بھی بھرتی کیا جائے گا. مخصوص نشستوں کے فیصلے کو یار لوگوں نے ابھی تک قبول کیا. وہ چاہتے ہیں کہ مخصوص نشستیں واپس مخلوط حکومت کے اراکین کو ہی ملیں.
میرے خیال میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کو تبدیل کروانا اتنا آسان نہیں ہو گا. فل کورٹ میں آٹھ ججز کا فیصلہ اور مستقبل کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے اس پر ریمارکس بہت سخت ہیں. حکومت اور اداروں نے اگر مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا توانکی عدلیہ کے ساتھ جنگ شروع ہو جائے گی اور ملک کو ایک نئے بحران کا سامنا ہو گا.
بحرحال.یہ سچ ہے کہ خان نے اپنے دور حکومت میں کوئی قابل قدر اقدامات نہیں کیے. مگر جیسے ہی وہ اقتدار سے ہٹے تو انکی قسمت کا ستارہ چمک گیا. وہ دوبارہ پاپولر ہوگئے عوام نے صرف خان کے نام پر ووٹ دیے. اور اب قید ہو کر بھی وہ سیاسی داو پیج کھیل رہے ہیں. ادارے اور حکومت انھیں ملک سے باہر بھیجنا چاہتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ میرا جینا مرنا اسی ملک میں ہے. اور یہ بات طے ہے کہ سسٹم خان کے بغیر نہیں چل سکتا..