جلسوں پر پابندی کا قانون اور 1122 کی گاڑیوں کا نامناسب استعمال !!!!

اسلام آباد میں اجازت کے بغیر جلسے کے معاملے میں قانون بن گیا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں جلسے، جلوس ریگولیٹ کرنے سے متعلق بل پر دستخط کر دئیے ہیں۔ یہ قانون فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔ قانون کو پرْامن اجتماع وامن عامہ کا نام دیا گیا ہے۔بل کے مطابق اسلام آباد کے موضع سنگنجانی یا کسی بھی ایسے علاقے میں جلسہ جلوس کیا جا سکے گا جہاں حکومت اجازت دے گی، حکومتی اجازت کے بغیر کے جلسہ جلوس کرنے یا اس میں شامل ہونے والوں کو تین سال تک جیل میں ڈالا جا سکے گا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس جلسے پر پابندی کا اختیار ہو گا۔ مجسٹریٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج آفیسر کو  مظاہرین کو منتشر کرنے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ غیر قانونی جلسے میں شریک افراد کو گرفتار اور حراست میں لیا جاسکتا ہے، ایسے افراد کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس قانون کے دو پہلو ہیں ایک پہلو جس پر حکومت نے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والوں کا راستہ روکنے کا بندوبست کیا ہے۔ ملک میں امن و امان کو برقرار رکھنے، غیر ضروری احتجاج، جلسوں کو روکنے اور آزادی اظہار کے نام پر سڑکیں بند کرنے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں حکومتی اقدامات کو درست قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ اس قانون سے متصادم ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے، ہر شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات اس کے گھر کی دہلیز پر میسر ہوں، صحت اور تعلیم کی سہولیات یکساں فراہم کی جائیں، جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اگر حکومت زندگی آسان بنانے میں کامیاب نہ ہو تو پھر لوگوں کو جلسوں کی اجازت لینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اسلام آباد میں جلسوں کی پابندی بنیادی طور پر سیاسی جماعتوں کی اسلام آباد پر چڑھائی روکنے کے لیے ہے۔ اس حد تک تو اسے سیاسی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ضرور یاد رکھیں کہ کل کلاں حکومت بدلے گی تو موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کو بھی اسی قانون پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ ریاست کو اختیار ہونا چاہیے، اس میں کوئی خاص برائی نہیں ہے لیکن پھر زندگی آسان بنانے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے۔ اب جیسے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا ہے کیونکہ تنخواہ دار طبقہ بے بس حکومت جیسے چاہے برتاؤ کر سکتی ہے سو حکومت کر رہی ہے۔ یہی معاملہ مہنگی بجلی کا ہے، عام آدمی مہنگی بجلی اور ماہانہ بلوں کے ہاتھوں بے بس ہو چکا ہے لیکن حکومت کے پاس کوئی حل نہیں۔ پنجاب حکومت نے دو ماہ کے لیے سہولت پیدا کی ہے لیکن کیا یہ سہولت پورے ملک کے لیے پورا سال یعنی بارہ ماہ کرنا ہو تو کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ یقینا اس وقت یہ ممکن نہیں۔ ان حالات میں حکومت اگر جلسوں پر پابندی کا قانون نافذ کر رہی ہے تو پھر احتجاج کی وجوہات پر بھی توجہ دے۔ احتجاج کیوں ہوتے ہیں، لوگ کیوں بدظن ہوتے ہیں، عام آدمی کیوں اپنے ہی ملک کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہوتا ہے ان بنیادی مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔ تاکہ احتجاج کا ماحول پیدا نہ ہو، لوگوں کے لیے زندگی کی اہمیت ہو، وہ احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ اپنے انسان دوست اقدامات سے لوگوں میں یہ شعور پیدا کریں کہ ملک کو نقصان پہنچانے والی تحاریک کا حصہ بننے کے بجائے ایسے عناصر کا راستہ کیسے روکنا ہے۔ یہ احساس ذمہ داری اور بروقت فیصلوں کی صلاحیت ہے اور یہ کام حکومتوں نے اپنے اقدامات سے ہی کرنا ہیں۔ 
خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد جلسے کیلئے خیبرپختونخوا کی ریسکیو 1122 کی گاڑیوں پر سفید سٹیکر لگا کر لفظ ’ریسکیو 1122‘ کو چھپا دیا ہے۔ ریسکیو 1122 کی یہ گاڑیاں صوابی پہنچائی گئی ہیں۔ اب اگر ریسکیو حکام یہ کہتے ہیں کہ سٹیکر لگانا کوئی بڑی بات نہیں ہے تو پھر وہ قوم کو یہ بھی بتائیں کہ اس سے پہلے کہاں کہاں یہ گاڑیاں سٹیکر لگا کر استعمال ہوتی رہی ہیں، کیا یہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا کیس نہیں ہے۔ اگر یہ گاڑیاں جلسے میں شریک افراد کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہیں اور اس دوران صوبے میں ان کی ضرورت پڑی تو کیا ہو گا، کیا یہ جلسہ خیبرپختونخوا حکومت سرکاری وسائل پر کر رہی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس کی انکوائری ہونی چاہیے اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سے پوچھا جانا چاہیے۔ اگر یہ بات سچ ہے اور پھر اس کی غیر جانبدارنہ انکوائری ہوتی ہے تو علی امین گنڈا پور کے پاس وزارت اعلیٰ پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہتا۔ یہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ صوبے کا وزیر اعلیٰ اگر اس قسم کی کارروائیوں کی سرپرستی کرے تو پھر دیگر وزراء سے کیا توقع کی جائے گی اور صوبے میں اداروں میں کام کیسے ہوتا ہے اس بارے اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آج یہ جلسہ ہے، گذشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی اس جلسے کے ساتھ ہی ریسکیو 1122 کی گاڑیوں کے نامناسب استعمال کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے اور اس کے ذمہ داروں کا تعین بھی ہونا چاہیے اور قرار واقعی سزا بھی ملنی چاہیے۔ 
آخر میں پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
کبھی  اْن  کا نام  لینا،  کبھی اْن  کیں بات  کرنا
میرا ذوق اْن کی چاہت، میرا شوق اْن پہ مرنا !!
وہ کسی کی جھیل آنکھیں، وہ میری جْنوں مِزاجی
کبھی  ڈْوبنا  اْبھر  کر، کبھی  ڈْوب کر  اْبھرنا !!
تِیرے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے
نہ  کِسی  کی  بات  سْننا  نہ کِسی سے بات کرنا !!
شبِ غم نہ پْوچھ  کیسے  تِیرے  مْبتلا  پہ گْزری 
کبھی آہ  بھر  کے  گِرنا،  کبھی  گِر  کے آہ بھرنا !!
وہ  تِیری  گلی کے تیور،  وہ  نظر  نظر پہ پہرے 
وہ  مِیرا  کِسی  بہانے  تْجھے  دیکھتے  گْزرنا !!
کہاں میرے دِل کی حسرت کہاں میری نارسائی 
کہاں تیرے گیسوؤں کا تِیرے دوش پر بِکھرنا !!
چلے  لاکھ  چال  دْنیا  ہو  زمانہ  لاکھ  دْشمن !!!
جو  تِیری  پناہ میں ہو اْسے کیا کِسی سے ڈرنا !!!
وہ کریں  گے ناخْدائی تو لگے گی پار کشتی !!
ہے "نصیر" ورنہ  مْشکل  تِیرا  پار  یوں اْترنا !!!

ای پیپر دی نیشن