ایک بڑا نیوٹریشن پروگرام۔احتیاط کے تقاضے

ہر قوم کے بچے اس کا مستقبل ہوتے ہیں اور قائد اعظم نے اسی پس منظر میں بچوں کی تربیت اور ان کی بہترین تعلیم پر ہمیشہ زور دیا۔ پاکستان میں اقتدار کی محاز آرائیوں نے اگر کسی شعبے کو بہت نظر انداز کیا تو وہ قوم کے بچوں کا مستقبل تھا۔ بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے نصاب ہمیشہ جوڑ توڑ کا نشانہ بنتے رہے ، کبھی بیرونی مداخلت کے نام پر اور کبھی مقامی سیاست کے نام پر پورا تعلیمی ڈھانچہ تجربات کی نذر ہوتا رہا۔ جب بچوں کی تعلیم کا شعبہ بھی محض خانہ پری تک محدود ہو تو ان کی صحت کی طرف کون توجہ دیتا۔ کون دیکھتا کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے والدین جو بچوں کو کپڑے تک لے کر نہیں دے سکتے وہ ان کی سکول کی ضروریات کیسے پوری کریں گے۔ ماضی میں ایسی باتیں تو ہوئیں کہ یہ جو بچوں کو سرکاری سکولوں میں مفت کتابیں دی جا رہی ہیں یہ باہر کے ایجنڈے کے تحت ذہن سازی کے منصوبے کا حصہ ہیں لیکن کسی کا دھیان اس بات کی طرف نہیں جاتا تھا کہ سکولوں میں آنے والے بچے کیا ناشتہ کر کے آتے ہوں گے۔ان کی مائوں کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ۔
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے کہ گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
یہ جو بڑے شہروں میں سکولوں خاص طور پر نجی سکولوں میں جانے والے بچوں کے ساتھ ہم لنچ باکس اور پانی کی بوتل کا حسن دیکھتے ہیں تو یہ پاکستانی بچوں کا شائد پانچ سے دس فی صد ہوں۔ بچوں کی اکثریت خاص طور پر دیہی سکولوں میں ایسی سہولت کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔گزشتہ روز جب مریم نواز شریف جنوبی پنجاب کے ایک سکول میں اپنے سب سے بڑے نیوٹریشن پروگرام کے افتتاح کے لئے گئیں تو انہوں نے بھی اس پروجیکٹ کے پس منظر میں ایک مشاہدے کا خاص طور پر تذکرہ کیا اور کہا کہ۔۔ نیوٹریشن پروگرا م کا خیال ایک سکول کے دورے کے دوران آیا جب مجھے آگاہ کیا گیا کہ کئی بچے اپنے گھروں سے بغیر ناشتے کے آتے ہیں اور اکثر بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ وزیر اعلی نے پنجاب کی حکومت سنبھالنے کے بعد جن منصوبوں کا اعلان کیا تھا ان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کی حکومت میں بچوں کی صحت اور تعلیم کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گا اور بچوں کو سکول میں دودھ مہیا کیا جایا کرے گا تاکہ ان کی صحت ٹھیک رہے اور صحت مند جسم کے ساتھ ان کا دماغ بھی صحت مند رہے۔ ان کے پروگرام پر اپوزیشن نے سوشل میڈیا پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا لیکن وہ اپنے طور پر ترجیحات کا تعین کر کے پہلے آٹا روٹی سستی کرنے پھر بجلی بلوں میں ریلیف دینے اور دوسرے منصوبوں کے بعد اب اپنے اعلان کردہ پروگرام کی طرف آئیں تو سب حیران ہوئے۔ گزشتہ روز وہ اپنے وزرا اور انتظامیہ کی متعلقہ ٹیم کے ارکان سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب،وزیر اطلاعات و ثقافت عظمی زاہد بخاری ، صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات، وزیر معدنیات شیر علی گورچانی ، ایم پی اے ثانیہ عاشق ،نوشین عدنان ، معاون خصوصی ذیشان ملک، چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان سیکرٹری سکولز اور دوسرے حکام کے ساتھ جب ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ پرائمری سکول ایم سی ون میں پنجاب میں ملک کے پہلے اور سب سے بڑے سکول نیوٹریشن پروگرام کا افتتاح کرنے پہنچیں تو منظر دیدنی تھا۔ مریم نواز نے ڈیرہ غازی خان گورنمنٹ پرائمری سکول کی ہر کلاس میں جا کر بچوں کو دوھ کے پیک دئیے۔ نشستوں پر جاکر دودھ کے ڈبے پیش کئے صرف یہی نہیں، بچوں کو دودھ کے پیکٹ خود کھول کر بھی دیئے اور نگرانی میں ختم کرائے۔ جب کوئی سیاستدان مقابلے کی فضا میں اپنے ایک بڑے منصوبے کا عملی آغاز کرتا ہے تو پھر عوام یا ان کے بچوں سے کھلتا بھی ہے چنانچہ وزیر اعلیٰ نے افتتاحی تقریب سے خطاب میں ایسا ہی کیا اور کہا کہ بہت پیارے بچو، آپ سے ملکر بے انتہا خوشی ہوئی ہے۔ ایک بچی خدیجہ نے مجھے ابھی کہا کہ آپ اتنی دور سے صرف ہم سے ملنے آئی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان لاہور سے جتنا بھی دور ہو میں آپ سے دور نہیں۔ بچو! میں لاہور میں بیٹھ کر بھی آپ کے بارے میں سوچتی ہوں کہ میری قوم کا مستقبل خوب پڑھے اور اچھی صحت ہو، طاقتور ہو۔ قوم کے بچوں کی اچھی گرومنگ ہو اور اچھی طرح تعلیم حاصل کریں۔ اس تقریب کے مہمان اور وی آئی پیز یہ بچے ہیں، ان بچوں سے اتنا پیار ملا کہ بتا نہیں سکتی۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ میں ان بچوں کے لئے ایسے ہی سوچتی ہوں جیسے ایک ماں اپنے بچوں کے لئے سوچتی ہے۔ طلبہ سے ان کے نام پوچھے تعریف کی طلبہ کے درمیان جا کر بیٹھ گئیں، اور ظاہر ہے طلبہ نے بھی مسرت کا اظہار کیا۔پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز ڈیرہ غازی خان راجن پور اور مظفر گڑھ کے اضلاع سے ہوا ہے اور ان اضلاع کے چار لاکھ غذائی قلت کے شکار بچوں کو روزانہ175 ملی لیٹر دودھ کا پیکٹ فراہم کیا جائیگا۔ پروگرام میں ایک مثبت ترکیب کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان اضلاع کے 3527سکولوں کے طلبہ دودھ پینے کے بعد خالی پیکٹ واپس جمع کروائیں گے اور ان ریپرز کی ری سائکلنگ سے جو آمدنی ہو گی وہ سکول کی انتظامیہ کو دی جائے گی وزیر اعلی کا کہناہے کہ پنجاب میں تقریباً 49ہزار سکول ہیں، بڑی خواہش ہے کہ سب سکولوں میں پراپر میل پروگرام شروع کریں، وسائل کی کمی ہے لیکن کوشش ہے۔ انشاء اللہ اچھا وقت آئے گا، اچھا وقت آ رہا ہے، پوری کوشش ہے کہ جتنی سہولتیں دے پائیں دیں گے۔ میری موٹیویشن ان بچوں کا چہرہ ہے، میں چاہتی ہوں کہ سکول کا انفراسٹرکچر، معیار تعلیم پرائیویٹ سکولوں سے بھی بڑھ کر ہو اور بچوں کی صحت بہترین ہو۔ پنجاب میں کریکولم اپ ڈیٹ کررہے ہیں، آوٹ سورسنگ پر کام جاری ہے، سکول نیوٹریشن پروگرام مہنگا ضرور ہے لیکن میری قوم کے بچوں سے قیمتی کچھ بھی نہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ عملی طور پر کچھ ایسا کر جائوں کہ آپ کو لگے کہ آپ کی سی ایم آپ کی ماں جیسی ہے۔ صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر اور ان کی ٹیم بہت محنت سے کام کررہی ہے، 90 روپے کے دودھ کے پیکٹ کو 63روپے میں حاصل کیا ہے۔۔ کم وسائل والے گھرانوں کے بچوں کی صحت کے لئے پنجاب حکومت کا یہ پروگرام بہت اچھا ہے لیکن اس میں احتیاط کے تقاضے بھی اہم ہیں جن کی طرف وزیر اعلی نے پیشگی اشارہ کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ قوم کے بچوں کا پیسہ ہے ایک روپے کی بھی خیانت ہوئی تو اللہ معاف نہیں کرے گا،۔ پروگرام کی سپرٹ خراب نہیں ہونی چاہیے، خورد برد یا کرپشن نہیں ہونی چاہیے ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ سکول نیوٹریشن پروگرام بچوں پر احسان نہیں ہے ان کا حق ہے اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلی کو پنجاب کی طرح سکول نیوٹریشن پروگرام شروع کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ غذائی کمی اور سٹینڈرڈ گروتھ تمام صوبوں کا مسئلہ ہے اور صوبوں کی تفریق سے ہٹ کر سوچنا ہوگا اس لئے کہ ، بچے پاکستان کا فیوچر ہیں اور یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور ویسے بھی۔
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
 وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...