معاشرے کو طبقوں میں بانٹتی سیاست

Sep 08, 2024

غلام حیدر شیخ

پاکستان میں رائے کی بنیاد پر بڑھتی عدم برداشت اور تقسیم سے معاشرہ طبقوں میں بٹ گیا ہے ، معاشرے میں قومی شناخت مفقود ہو کر رہ گئی ہے ، معدوم ہوئی معاشرتی اور قومی شناخت کو طبقوں میں بانٹتی بونی اور زہریلی سیاست اور بونی سوچ کے حامل سیاست داں اس کے ذمہ دار ہیں ،جنہوں نے معاشرتی اقدار کو خود غرضی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ دنیا میں متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں صرف دو یاچار سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن پاکستان ایشیاء کا واحد ملک ہے جہاں غیر رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 251 ہے‘ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ 166 جماعتیں ہیں، یعنی ہم 251 طبقوں میں بٹے ہوئے ہجوم نما باسی ہیں جن کی سیاسی، دینی اور نظریاتی وابستگی شخصیت پرستی کے گرداب میں دھنسی ہوئی ہے، کسی بھی وجہ سے معاشرے میں ذرا سی مقبولیت حاصل کر لینے والا شخص اپنی ایک علیحدہ سیاسی پارٹی بنا لیتا ہے، پاکستان میں بعض ایسی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں جو کہ فرد واحد پر مشتمل ہیں لیکن وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں، ایسی جماعتوں کو اگر ایک سے زائد ووٹ بھی ملے تو یہ معاشرے کو تقسیم کرنے کیلئے کافی ہے، اسی طرح 166 رجسٹرڈ جماعتوں کے کارکن معاشرے کی تقسیم میں شامل ہیں اور عام عوام بھی تقسیم کے اس عمل میں لا شعوری طور پرحصہ دار بنی ہوئی ہے ۔
تحقیق کے مطابق الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں کے علاوہ غیر رجسٹرڈ جما عتوں کا کوئی شمار نہیں، جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشانات کم پڑ گئے، کثیر تعداد میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی کے باوجود نئی سیاسی پارٹیاں بھی جنم لے رہی ہیں، ان پارٹیوں کے قیام کا مقصد درپردہ ذاتی مفاد حاصل کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں، نہ ہی یہ عوام کی خواہش پر بنتی ہیں اور نہ ہی ملک کو ان کی ضرورت ہے، نئی پارٹیوں کے سربراہ وہ بن بیٹھتے ہیں جو کہ ایک طویل مدت تک کسی پارٹی میں رہتے ہوئے حکمرانی کی لذتیں لیتے ہیں‘ جب پارٹی قیادت نئے آنے والوں کو ایڈجسٹ کرتی ہیں تو ایسے مفاد پرست عناصر سیاسی تحفظ حاصل کرنے لئے اپنی الگ (کٹھیا) سیاسی جماعت بنا کر عوام کو طبقوں میں بانٹنے کے مر تکب ہوتے ہیں ۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک بھر میں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد ایسی غیر معروف سیاسی جماعتیں ہیں، جن کے نام یقیناً کبھی کسی پاکستانی فرد نے نہیں سنے ہوں گے، جن میں محب وطن نوجوان انقلابی ان پارٹی، پاکستان مقصد ہمت تحریک، غریب پارٹی، جمہوری امن پارٹی، شانِ پاکستان، تحریک وفاق پارٹی، غریب عوام پارٹی، لوئر مڈل پارٹی، جنت پاکستان، پاکستان غربا پارٹی، انقلابی خدمت گار تحریک اور موو آن پاکستان، اسی طرح ملک میں سب سے زیادہ تعداد دینی اور مذہبی جماعتوں کی ہے‘ ان کی تعداد تقریباً 40 کے قریب ہے، جن میں عظمت اسلام موومنٹ، اسلامی سیاسی تحریک، نظام مصطفی پارٹی، پاک مسلم الائنس، عوامی قوت، اللہ اکبر تحریک اور اسلامی ری پبلیکن پارٹی وغیرہ۔ ملک میں کچھ ایسی بھی غیر معروف سیاسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے عالمی شہرت کی حامل غیر ملکی سیاسی پارٹیوں سے ملتے جلتے نام رکھے ہوئے ہیں، مثلاً ڈیموکریٹ ری پبلیکن، لیبر کانگریس، ورکرز پارٹی، سوشل ڈیموکریٹک ، پروگریسیو، سوشل جسٹس، کنزرویٹو اور کیمونسٹ وغیرہ ہیں، جبکہ قومی سطح کی سیاسی اور دینی جماعتوں کی تعداد لگ بھگ پندرہ کے قریب ہے، صوبائی اور علاقائی سطح پر محدود رہنے والی قوم پرست جماعتیں تیرہ کے قریب ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں نسلی اور لسانی بنیادوں پر رکھے گئے ناموں والی رجسٹرڈ جماعتیں بھی ہیں جن کہ تعداد اٹھارہ ہے، ان میں ہزارہ قومی محاذ، اتحاد ملی ہزارہ، جاموٹ قومی موومنٹ، مہاجر قومی موومنٹ، مہاجر اتحاد تحریک، مہاجر کشمیر موومنٹ، بروہی پارٹی، سرائیکی پارٹی، سرائیکی صوبہ موومنٹ، پشتون قومی تحریک، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ہزارہ عوامی اتحاد کے علاوہ ملکی سطح کی متعدد قومی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں بھی ہیں جن کہ وجہ سے ووٹر اور کارکن بھی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، پاکستان مسلم لیگ کے سب سے زیادہ چھ دھڑے ہیں، جمعیت علماء پاکستان کے تین دھڑے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے تین دھڑے ہیں، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے دو اور جمعیت علماء اسلام کے بھی دو دھڑے معاشرے کو طبقوں اور دھڑوں میں بانٹنے کے مرتکب ہیں۔ ملک کی اقلیتوں کی بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں لیکن یہ محدود پیمانے پر ہیں، نسلی لسانی اور مختلف نظریات کی بھر مار سے پاکستان کا معاشرہ بکھر کر رہ گیا ہے، جو کہ سیاسی اور فرقہ وارانہ تفریق کی وجہ سے اکثریت اقلیت میں تقسیم ہو گئی ہے، ملک میں مجازاً ناواقف جمہوری روایات اور اداروں کے قصداً اکثریت اور اقلیت کے درمیان فرق کو پیدا کرنے کا فائدہ سیاسی جماعتوں نے اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے، نظریات سیاست کی اثاث ہوتے ہیں، یہ نظریات انسان دوست بھی ہو سکتے ہیں اور انسان دشمن بھی، منفی سیاست معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ قوم کو طبقوں میں بانٹنے کے مرتکب ہو تے ہیں۔سردست ملک میں اعلیٰ نظریے کے شعور کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کو مستحکم کر سکیں، جو کہ اجتماعیت کو فروٖ غ دے کر اقلیتی طبقے کی چنگل سے آزاد کر سکے۔ اس وقت ملک میں انسان دشمن اصولوں پر نظام قائم ہے ،جو کہ عام آدمی کے استحصال اور اقلیت کو اکثریت پر غالب کرتا ہے، ملکی اداروں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو غیر معروف اور غیر رجسٹرڈ سیاسی، دینی، نسلی اور لسانی جماعتوں پر پابندی لگا کر طبقوں میں بٹی قوم کو ایک قوم بنانے میں اپنا اہم قومی کردار ادا کرنا چاہئے، اس کے بغیر ملک میں نہ ہی استحکام پیدا ہوگا اور نہ ہی معیشت میں بہتری ہوگی۔ 
٭…٭…٭

  
 

مزیدخبریں