بلوچستان کے سابق وزیراعلی اختر مینگل نے قومی اسمبلی سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں’’بلوچوں‘‘ کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتا جس کے لیے انہوں نے مجھے منتخب کیا تھا اس لیے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی آ ئینی اور قانونی ذمہ داری سے دستبردار ہو رہا ہوں۔ انہوں نے اپنا استعفی اسپیکر قومی اسمبلی کے آ فس میں جمع کرا دیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ استعفیٰ قبول بھی ہوگا کہ نہیں یا وہ استعفیٰ واپس لیں گے یا نہیں ،حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ان سے ملاقاتیں بھی کی گئیں لیکن ابھی تک وہ استعفیٰ نہ لینے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس ایک استعفے نے قومی سیاست میں ایسی ہلچل پیدا کر دی ہے جسے اپوزیشن سے زیادہ حکومت محسوس کر رہی ہے حالانکہ موجودہ دور میں حکومت میں انکے آ نے یا جانے سے،، نمبر گیم،، پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ اتحادی ہیں۔ وجہ صرف ایک ہے کہ اختر مینگل قومی تقاضوں اور بلوچستان کے حوالے سے ایک صاحب بصیرت سیاستدان ہیں۔ قومی سیاست اور استحکام پاکستان ہی نہیں ،جمہوری اقدار کے لیے بھی ان کے خاندان کی خدمات قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔
اس ایک استعفے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلا سوال ماضی کے حوالے سے ہے کہ عمرانی حکومت کے خلاف بارش کا پہلا قطرہ اختر مینگل ہی بنے تھے، کیا اس وقت بھی وہی معاملات ہیں؟ یا وہ ماہ رنگ بلوچ اور بی۔ این۔ اے کی رائے سے متاثر ہو کر اسمبلی سے باہر بلوچ محرومیوں کے رد عمل میں آ ئے ہیں ،یہی نہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان کا استعفیٰ ترقیاتی فنڈز کی عدم فراہمی کا ردعمل ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کے عوامی رہنما خواجہ سعد رفیق نے اختر مینگل کے استعفے کو حکومت کے لیے نیک شگون قرار نہیں دیا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومتی ذمہ دار استعفے کو،، توجہ دلاؤ نوٹس ،،سمجھتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور اس استعفے کو واپس لینے پر مجبور کریں کیونکہ اختر مینگل اپنی اصولی سیاست کے باعث پارلیمنٹ کی ایک اہم اور بھاری بھرکم شخصیت ہیں جنہوں نے ملک کے اچھے برے سیاسی حالات میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کے لیے ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے تجزیہ کاروں کا بھی یہی اندازہ ہے کہ ان کا استعفیٰ انفرادی ہرگز نہیں ،حکومت اور رائج الوقت سسٹم کے خلاف عدم اعتماد ہے لہٰذا صرف وزیراعظم ہی نہیں، صدر زرداری بھی اپتنا ’’بلوچ کارڈ،، استعمال کرتے ہوئے مثبت مفاہمتی کردار ادا کریں تاکہ بلوچستان میں پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ کر کے امن کی بحالی کے لیے نئے راستے تلاش کیے جا سکیں بلکہ اختر مینگل کی مشاورت سے اقتصادی بحران کے خاتمے اور سی پیک کی کامیابی کو بلوچوں کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد بنا کر غلط فہمیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اختر مینگل بلوچستان کے ایک مستند سیاستدان اور بلوچ سردار ہیں ان کے تحفظات دْور کرکے مشاورت سے دوسرے سرداروں کو بھی قومی دھارے میں لانے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے ورنہ بیرونی مداخلت سے بلوچستان میں بدامنی کے مواقع بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا کردار بھی موجودہ تناظر میں بڑھ گیا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ملکی استحکام اور دہشت گردی سے نجات کے لیے بیک وقت اختر مینگل، محمود اچکزئی، رئیسانی اور دیگر بلوچ رہنماؤں سے اعلانیہ نہیں تو غیر اعلانیہ اجتماعی مفاد میں رابطے بحال کریں یہی موجودہ حالات اور قومی مفادات کا تقاضہ ہے۔ اگر سیاسی عدم استحکام میں غفلت یا مصلحت پسندی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی گئی تو مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اس لیے رسک نہیں لیا جا سکتا ،مہنگائی ،بے روزگاری اور معاشی بحران سے جان چھڑانے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بد امنی کا خاتمہ ہر قیمت پر ضروری ہے اس لیے خواجہ سعد رفیق کی بات کو وزن دینا ہوگا کہ بلوچستان کے معاملات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں وہاں طاقت اور صرف زبانی کلامی مذاکرات سے حل نہیں نکل سکے گا، کچھ عملی اقدامات کا مظاہرہ کرتے ہوئے’’ بلوچی کلچر‘‘کے مطابق سرداروں کو بھی اعتماد میں لینا پڑے گا۔
بلوچستان قدرتی معدنیات سے مالا مال لیکن قومی حکمت عملی میں ذمہ داران کوئی نہ کوئی غلطی ایسی سرزد کر جاتے ہیں کہ بنتی بات بھی بگڑ جاتی ہے، اس وقت ریکوڈک، گوادر سی پیک منصوبے بلوچوں کی قسمت بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں لیکن ان منصوبوں کے حوالے سے ابہام اور غلط فہمیاں اسی صورت میں ختم ہو سکیں گی جب بلا امتیاز سب کو قومی مفادات میں ایک میز پر بٹھانے اور انہیں اعتماد کی بحالی کے لیے کسی آ سان فارمولے کی روح سے سمجھایا جائے ، بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نگران حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے ایسے تمام راز جانتے ہیں جو وہاں کے عام سیاستدان نہیں جانتے، اسی لیے وہ مذاکرات کے حامی بھی ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ سیاسی مسائل سیاسی انداز میں حل کرنے کو تیار ہیں لیکن الزامات لگانے والوں کو بھی اپنے انداز بدلنے ہوں گے الیکشن کی معرکہ آ رائی اور لڑائیاں الیکشن کے ساتھ ہی ختم ہو جانی چاہیں کیونکہ بحران جس قدر بھی شدید ہو ، قاتلوں سے بات چیت کیسے کی جا سکتی ہے ؟جو لڑ رہے ہیں وہ ترقی‘خوشحالی اور علاقائی مسائل کی بات نہیں کرتے بلکہ آ زاد بلوچستان کی بنیاد رکھنے کی بے بنیاد بات کرتے ہیں ایسا ایجنڈا ،،بلوچوں،، کا ہرگز نہیں، یہ بہکائے ہوئے لوگ کسی سازشی ایجنڈے کے آ لہ کار ہیں۔
بلوچستان کی صورتحال، دہشت گردی کی وارداتیں اور قتل و غارت گری اب کسی سے پوشیدہ نہیں، حکومت کو جہاں شر پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کی ضرورت ہے وہاں ریکوڈک، گوادر اور سی پیک کے حوالے سے جامع حکمت عملی مقامی ذمہ داروں کے ساتھ مل کر بنانی ہوگی تاکہ بد اعتمادی کی فضا کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔ یہ تمام منصوبے ’’بلوچستان‘‘ میں بسنے والوں کے لیے بہترین مواقع کے مصداق ہیں جن کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھایا جائے بلکہ ان معاملات کو سلجھانے کے لیے اختر مینگل کے ایک استعفے کو بھاری بھرکم جان کر مستقبل کی مثبت منصوبہ بندی کی جائے۔
اختر مینگل ایک مثبت سوچ رکھنے والی جمہوریت پسند اور محب وطن شخصیت کا نام ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہتھیار اٹھانے والے بلوچوں کے تحفظات دور کر کے ان کی صلاحیتوں کو بلوچستان اور پاکستان کے لیے بروئے کار لایا جائے اس کام میں جتنی جلدی کی جائے گی نتائج بھی اسی تیزی سے نکلیں گے۔
اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ حالات کی نزاکت کو پرکھتے ہوئے یہ بات سب کو یاد رکھنا ہوگی کہ سیاسی معاملات سیاسی قیادت ہی سلجھا سکتی ہے۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ سیاست دانوں کو با اختیار بنائیں ہر معاملے میں ،،فیصل آ باد،، کا گھنٹہ گھر نہیں بننا چاہیے ،،پراکسی جنگ،، سے ہمیں نہیں، عالمی طاقتوں کو فائدہ ہوگا دنیا کے مفادات کی وجہ سے ہمارے ترقیاتی منصوبوں کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ بلوچستان اور کے۔ پی۔ کے کے چند ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پاکستان کا ترانہ اور جھنڈا لہرانا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ ایسے میں خود اعتمادی کے ساتھ قدم آ گے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ میں مخالفت کریں گے اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن پارلیمنٹ کو کوئی غیر سنجیدہ نہ لے کیونکہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے۔ حکومت کی ’’رٹ،، بلوچستان ہو یا خیبر پختون خواہ، سب جگہ قائم ہونی چاہیے اور اگر ریاست پر کوئی حرف آ یا تو پھر ہم اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن جمہوری اور پارلیمانی نظام کو کسی ’’جادو کی چھڑی ،،سے نہ چلایا جائے ، جمہوری انداز میں مملکت اور عوام کی ترقی کے لیے فلاحی کام کیے جائیں۔ اس واضح اعلان کے بعد یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اختر مینگل کا استعفی کوئی انفرادی حیثیت کا حامل نہیں بلکہ یہ جمہوریت ،جمہوری اداروں اور اس نظام کے چاہنے والوں کے لیے، بلکہ حکومت کے لیے ’’توجہ دلاؤ نوٹس،، ہے اگر کسی قسم کی کوتاہی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا تو پھر ہم سب کو منفی نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ کوئی بھی سانحہ پیش آ سکتا ہے۔
٭…٭…٭