ظہیر قریشی

Sep 08, 2024

جمیل اطہر قاضی

ظہیر قریشی نے فیصل آباد کی صحافت کی عزت و وقار میں گراں قدر اضافہ کیا اور ’’عوام‘‘ کو صحیح معنوں میں ایک مقامی اخبار بنا کر اس نے ’’عوام‘‘ کو علاقائی صحافت کے لئے ایک ماڈل پیپر کی شکل دے دی۔ پورے ملک میں اس سے پہلے ’’عوام‘‘ کی طرز کا کوئی علاقائی اخبار موجود نہیں تھا جس طرح مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی ادارت میں نکلنے والے چھوٹے آٹھ صفحات کا ’’سچ‘‘، ’’صدق‘‘ اور ’’صدق جدید‘‘ بڑے وقیع اخبار سمجھے جاتے تھے اسی طرح ظہیر نے ’’عوام‘‘ کی صورت میں ایک مثالی علاقائی اخبار کا ورثہ قومی صحافت کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ جس سے صحافیوں کی آئندہ نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی میں تو اسے علاقائی صحافت کا محسن سمجھتا ہوں جس نے مقامی اخبار کے حقیقی تصور کے خاکے میں رنگ بھرا اور کئی جدتیں اختیار کیں۔ مجھ جیسے لوگ جنہوں نے ان کے والد سے صحافت کا ابتدائی درس لیا، اس میدان میں ظہیر کو اپنا رہبر و رہنما ماننے لگے۔
ظہیر قریشی نے صحافت میں مہینوں اور سالوں کاسفر دنوں اور ہفتوںمیں طے کیا اور اس کا اخبار فیصل آباد کے عوام کی آواز بن گیا اس نے ساری دنیا سے قطع تعلق کرلیا وہ اور اس کا اخبار فیصل آباد کے ہوکر رہ گئے، اس نے اخباری تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای کی رکنیت کا اعزار تو برقرار رکھا لیکن وہ عملی طور پر ان سے بے تعلق ہوگیا، آخری دو برسوں میں میری درخواست پروہ کراچی اور لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں ضرور شریک ہوا اور میرا مان بڑھانے کا ذریعہ بنا ورنہ وہ کسی اور کے کہنے پر اس کے لئے راضی نہ ہوا تھا۔
 وہ سی پی این ای کے ایک اجلاس میں شریک تھا، میں نے ارکان سے اپیل کی کہ وہ اپنا چندہ ادا کردیں، ظہیر اپنی نشست سے اٹھا اور اس نے صدرِ اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اطہر بار بار ارکان سے چندہ دینے کی اپیل کررہے ہیں ان سے کہیں کہ وہ لفظ چندہ استعمال نہ کریں اس کا کوئی اور موزوں متبادل لفظ استعمال کریں… میں نے ظہیر کی تجویز مان لی اور یہ لفظ پھر استعمال نہ کیا لیکن آج میں ظہیر سے اس کی روح کے ذریعے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ:
’’اے میرے چندا! تُو نے دنیا چھوڑنے میں اتنی جلدی کیوں کی اور رفیعہ اور ثبات کو اس آزمائش میں کیوں ڈال دیا کہ وہ تیری قائم کردہ اعلیٰ صحافتی صفات اور عظیم انسانی اوصاف کا پرچم تمہاری ہی طرح بے جگری سے تھامے رکھیں، مجھے یقین ہے کہ تم نے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر پہلی دعا ثبات کے لئے ثابت قدمی کی ہی کی ہوگی اور ثبات اللہ ہی کے فضل سے خلیق و فضل و ظہیر کی روایات کا نگہبان اور پاسدار بنے گا‘‘۔ یادوں کی اس کہکشاں کا کون کون سا درخشاں پہلو آپ کے سامنے رکھوں۔ چلتے چلتے ظہیر کی ایک اور تصویر آپ کو دکھادوں ایک بڑے اخباری گروپ کے سربراہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ظہیر کو اس بات پر آمادہ کروں کہ ’’عوام‘‘ کا ڈیکلریشن انہیں دے دے اور خود کسی اور نام سے اخبار نکال لے میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ظہیر صرف ’’عوام‘‘ کا ناشر اور مدیر و مالک ہی نہیں یہ اس کی متاع عزیز ہے، وہ ’’عوام‘‘ کا عاشق ہے اور ’’عوام‘‘ سے اپنی وابستگی ہرگز ہرگز ختم نہیں کرے گا لیکن اصرار جاری رہا اور پیہم اصرار سے مجبور ہوکر میں نے ایک روز ظہیر کو فون کرہی دیا لیکن یہ کہنے کے لئے کہ… آپ کے لئے یہ پیغام ہے فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے، مشورہ میرا یہ ہے کہ اپنے والد کی میراث… ’’عوام‘‘ کی حفاظت کرنا اس کا سودا نہ کرنا… ظہیر نے کہا، ’’جمیل صاحب! اچھا کیا آپ نے مجھے یہ پیغام پہنچانے کے ساتھ یہ مشورہ بھی دے دیا اگر آپ مجھے ’’عوام‘‘ کا نام فروخت کرنے کے لئے کہتے تو یہ آپ سے میری آخری گفتگو ہوتی۔ یہ ’’عوام‘‘ سے عشق کا ایک ادنیٰ اظہار تھا حقیقت میں وہ ’’عوام‘‘ کا عاشق تھا، ’’عوام‘‘ اس کا محبوب تھا اور فیصل آباد کے عوام بھی اس کے معشوق اور محبوب تھے جن کی ترجمانی کا حق اس نے اس شان سے ادا کیا کہ سارا فیصل آباد اپنے اس سچے عاشق کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے گلستان کالونی کی گرائونڈ میں اُمڈ آیا۔ سچ ہے کہ عاشقوں کے جنازے دھوم سے ہی اٹھتے ہیں۔ ظہیر کا ایک اور وصف اس کا اللہ پر توکل تھا یہ توکل بلڈنگ میں اس کا دفتر واقع ہونے کی کرامت تھی یا شیخ المشائخ حضرت اختر سدیدیؒ کا فیضانِ نظر لیکن یہ وصف ظہیر کی آن بھی تھا اور شان بھی۔
آخر میں بارگاہ ایزدی میں ظہیر قریشی اور احمد ثبات کی دعائوں اور مرشد حضرت اختر سدیدی جن کے فیض سے ظہیر صحافی کے ساتھ ساتھ صوفی بھی بن چکا تھا، کی خشوع و خضوع سے ایک دعا کے چند اقتباس… آئیے دست دعا اٹھائیں۔
یا رب رحیم حاسدوں کی نظر بد سے بچا
اے مولا تو جانتا ہے کہ یہ کسی سے حسد نہیں کرتے
اے تمام جہانوں کے خالق اور مالک تو ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے۔ 
ہماری مدد فرما کہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں
اے باری تعالیٰ !
احمد ثبات کو اپنے حبیب کے صدقے یقین محکم اور عمل پیہم کی دولت سے مالامال رکھنا
لازوال جذبۂ خدمتِ انسانیت سے سرشار رکھنا
سکون قلبی عطا کرنا اور کمینوں کی دوستی سے محفوظ رکھنا۔وقار سے زندہ رہنے کے اسباب مہیا فرمانا… آمین ثم آمین۔ … (ختم شد)
٭…٭…٭

مزیدخبریں