اتوار ‘ 3 ربیع الاول 1446ھ ‘ 8 ستمبر 2024ء

وزارت خزانہ کے  ملازمین کو ایک سال میں چار بونس۔
عوام کو پہلے ہی سرکاری محکموں سے بے حد شکایات ہیں‘ اب جلتی پر تیل ڈالنے والی اس خبر سے تو وہ اور بھڑک اٹھیں گے۔ پہلے ذرا وزارت خرانہ والے یہ تو بتائیں کہ انہوں نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ انکے ملازمین کو ایک سال کے دوران چار عدد بونس یعنی اعزازیہ بڑے فخر سے دیا جارہا ہے۔ ایک طرف کئی محکمے ختم  کئے جا رہے ہیں‘ کئی میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے اور دوسری جانب عوام کی کمر توڑنے والے اس محکمہ کو نوازا جا رہا ہے۔ یہ تو سانپ کو دودھ پلانے والی بات ہوئی۔ ہاں اگر وزارت خزانہ کی طرف سے عوام کو کسی بھی شکل میں کوئی ادنیٰ سا فائدہ بھی ہوا ہوتا تو لوگ اس خبر پر خوش ہوتے۔ مگر ایسا تو انہوں نے کیا نہیں‘ البتہ پے در پے ناروا ٹیکسوں کے نفاذ سے عوام کی زندگی اجیرن کرنے میں اس محکمہ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے باوجود اب یہ اپنے کارندوں کو مزید خونخوار کرنے کیلئے انہیں شاباش دے رہے ہیں۔ ایسی ہی وزارتوں اور وزیروں کیلئے غالب نے کیا خوب کہا تھا:
دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کیلئے
ویسے بھی کہتے ہیں ’’مایا کو ملے مایا کر کر لمبے ہاتھ‘‘ یہ بھی کسی صاحب عقل نے ہی کہا ہوگا۔ آج تک یہی ہوتا آرہا ہے‘ مال ہمیشہ مالدار کے در دولت کا ہی رخ کرتا ہے۔ عوام کے غریب خانے میں تو فاقے ہی تشریف لاتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ کبھی بھولے سے ہی مایا دیوی گنگو تیلی کی کٹیا کا بھی رخ کرے اور اسے بھی نہال کر دے مگر شاید یہ مناسب جگہ نہ ہونے اور اچھا استقبال نہ ہونے کی وجہ سے لکشمی بھی ایسے ویران کھنڈر گھروں کا رخ نہیں کرتی۔ وہ تو ہمیشہ سے محلات اور بنگلوں کی شوقین اور عادی  ہے جہاں سونے کی تھالی میں اسکی آرتی اتاری جاتی ہے تو اسے کیا پڑی کہ وہ ٹوٹی ہوئی مٹی کی تھالی میں سواگت کرنے والوں کی جونپڑیوں کا رخ کرے۔ تو معلوم ہوا کہ مال بھی وہاں جاتا ہے جہاں پہلے ہی سونے اور چاندی کے سکوں کی کھنک ہو۔ اسے یہ مترنم آواز کسی کٹیا میں ریں ریں کرتے بچوں اور کھوں کھوں کھانستے بوڑھوں سے زیادہ اچھی لگتی ہے۔ 
٭…٭…٭
ربیع الاول کے چاند کے اعلان میں تاخیر سے  لوگ حیران۔ 
شاید یہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ رمضان اور شوال کے چاند کے علاوہ بھی کبھی کسی چاند کی رویت کے حوالے سے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اتنی دیر تک جاری رہا اور کبھی چاند نظر آگیا اور کبھی نظر نہ آنے کی افواہیں تیزی سے گردش کرتی رہیں۔ شکر ہے رمضان کی طرح تراویح کا مسئلہ درپیش نہیں تھا ورنہ مسئلہ اور ٹیڑھا ہو جاتا۔ بالآخر ساڑھے 9 بجے کے خبرنامے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے متفقہ اعلان کیا کہ ملک بھر میں کہیں بھی ربیع الاول کا چاند نظر نہیں آیا۔ اس لئے عید میلادالنبی 17 ستمبر کو ہوگی۔ یوں خدا خدا کرکے اس اعلان سے لوگوں کی بے چینی ختم ہوئی۔ سچ پوچھیں تو اس وقت بھی مولانا پوپلزئی بہت یاد آئے۔ کیا باغ و بہار شخصیت ہیں۔ سارا ملک ایک طرف اور مولانا ایک طرف کھڑے اپنی رویت کا اعلان کرتے نظر آتے تھے۔ یوں اعلان میں تاخیر کے علاوہ انکی من مرضی خوب رنگ جماتی۔ ربیع الاول کے چاند کے حوالے سے کبھی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ ہی کسی کو مولانا پوپلزئی کی یاد آئی۔ اب کی بار خلاف توقع ملک بھر کے کسی بھی حصے سے چاند نظر آنے کی اطلاع اگر نہیں ملی تو پھر اعلان رات 8 بجے تک ہی کر دینا چاہیے تھا تاکہ کوئی خلجان نہ رہے۔ مگر کسی مصلحت یا حکمت کے تحت ایسا نہیں کیا گیا اور اتنی تاخیر سے اعلان کے بعد اب لگتا ہے کہ باقی مہینوں میں بھی چاند کے حوالے سے یہی شش و پنج کی کیفیت رہے گی۔ جدید سہولتوں اور سائنسی آلات کے سبب دنیا میں کہیں بھی رویت ہلال پر اتنا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جتنا ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ 
٭…٭…٭
قومی اسمبلی میں فضل الرحمان کے خطاب نے سیاسی منظرنامہ بدل دیا۔ 
کالج میں کایا کلپ کا مضمون جو غالباً انتظار حسین کا لکھا تھا‘ پڑھا تھا خاصہ تجریدی قسم کا جدید اسلوب میں تھا۔ اس سے پتہ چلا کہ کایا کلپ کا مطلب ہے وجود کی تبدیلی۔ کہ کس طرح ایک آدمی ماحول کے مطابق خود کو انسان سے کسی اور وجود میں بدل دیتا ہے۔ آجکل  کے بے اصول اور مطلب پرست دور میں یہ عمل  عام ہے۔ خودبخود بہت سے لوگ اپنی جون تبدیل کرلیتے ہیں۔ کوئی اسے یوٹرن کہے یا عقلمندی‘ اب اس بحث میں کوئی کیوں پڑے۔ البتہ اس وقت ایک بڑے مذہبی و سیاسی رہنماء کے بیانیہ میں، سوچ میں چند ملاقاتوں کے  بعد یکدم جس طرح مکمل تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے‘ اس نے کایا کلپ کا درست مطلب بالکل سمجھا دیا ہے۔ کچھ دن پہلے تک مولانا اپنے وفد کے ساتھ کبھی پی ٹی آئی والوں کے دیوان خانے ان سے ملنے جاتے اور کبھی ان کا وفد بڑے طمطراق سے مولانا کے دردولت پر حاضر ہوتا تو وہ مل کر حکومت اور اسمبلی کو جڑ سے اکھاڑنے پر متفق نظر آتے تھے۔ اب زرداری صاحب کے ساتھ ایک ہی ملاقات میں برف پگھل گئی۔ حکومت گرانے‘ اسمبلی توڑنے کی بات کرنے والے گرم گفتار مولانا یکدم قومی اسمبلی میں گزشتہ روز شریں گفتار بن گئے اور کہا کہ اسمبلی میں رہتے ہوئے قومی مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ اب چاہے یہ اسمبلی فارم 47 والوں کی ہے یا فارم 45 والوں کی‘ اس کو بروئے کار لانا ہوگا۔ کوئی خود کو اختیارات کا گھنٹہ گھر نہ بنائے ان کی تقریر سن کر اپوزیشن والوں کے دلوں پر نہ جانے کیا گزری ہوگی‘ خود حکمران اتحاد والے بھی ہکا بکا رہ گئے کہ پل بھر میں یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا۔ قیدی کپتان کی تو نہ پوچھیں‘ ان کا تو یہ وار  بھی  اوچھا پڑ گیا۔ پتھر انکی جھولی میں اور پھل کسی اور کی جھولی میں جاگرا۔ اب معلوم نہیں اپوزیشن اتحاد میں کیا بچا ہوگا۔ اس لئے کہتے ہیں سب سے پنگا لینا چنگا نہیں ہوتا۔ یہی بات مولانا نے بھی کہی ہے کہ خود کو طاقت و اختیارات کا گھنٹہ گھر سمجھنے والی پالیسی درست نہیں اور یہ بات سب اگر سمجھ لیں تو واقعی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 
٭…٭…٭
پاکستان میں 69  فیصد بہوئیں اپنی ساس کے ساتھ خوش ہیں‘ تحقیقاتی سروے۔
یہ تو صاف پتہ چل رہا ہے کہ سروے والوں سے کوئی بڑی بھول ہو گئی ہوگی یا پھر جواب دینے والوں نے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کیلئے ایسا جواب دیا ہو گا۔ اس تحقیقاتی سروے یا رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں۔ اگر ایسا  ہی ہے تو پھر یہ جو گھر گھر میں آئے روز ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کا رونا رویا جاتا ہے۔ یہ کیا ہے۔ دعا تو یہی ہے کہ حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو کہ ہر گھر میں ساس اور بہو کے درمیان یہ تنائو نظر نہ آئے۔ اگر حقیقی دنیا میں دیکھا جائے تو 69 فیصد سر پھٹول تو انہی دو کا ہے‘ بمشکل 31 فیصد گھروں میں ساس بہو کے درمیاں ماں بیٹی کا پیار ہوتا ہے۔ اصل شامت بے چارے گھر کے مردوں کی آتی ہے۔ ایک ماں ہوتی ہے جو گھر کی اصل مالک ہوتی ہے اور دوسری طرف بیوی جو اب اس گھر کا کنٹرول خود سنھبالنے کے درپے ہوتی ہے۔ اب یہ بات سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی گھر کا کنٹرول کسی دوسرے کو آسانی سے نہیں دیتا۔ یوں ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ اب اسے مہابھارت کا نام دیں یا پانی پت کی لڑائی کا۔ مرد حضرات تو بس میرو پہاڑ کی طرح خاموشی سے یہ سارا مہابھارت کا منظردیکھتے ہیں۔ کبھی ماں کو تو کبھی بیوی کو مناتے پھرتے ہیں۔ بہت کم کبھی ایسا ہوا ہے کہ سسر اور داماد میں گرمی سردی  ہوئی ہو۔ اگر ہو بھی تو  بات معذرت تک ھی محدود رہتی ہے صلح ہو جاتی ہے۔ شہر ہوں یا دیہات ہر جگہ اس رپورٹ کے مطابق بہوئوں نے 70 فیصد اپنی ساسوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا جو ذکر کیا‘ وہ خوش آئند ہے۔ تو پھر یہ جو میڈیا پر آئے روز گھر ٹوٹنے‘ قتل کرنے‘ جلا دینے اور نکال دینے کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں‘ کیا یہ جان بوجھ کر فساد پھیلانے کی کوئی سازش ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...