حکومتی اپیلیں منظور، نیب ترامیم بحال

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت اور دیگر اپیک کنندگان کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا 3 رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور نیب ترامیم بحال کردیں۔ عدالت عظمی نے تفصیلی فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خاں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم خلافِ آئین تھیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید اظہر حسن رضوی پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے ان انٹرا کورٹ اپیلوں محفوظ کیا گیا اپنا فیصلہ گذشتہ روز جاری کیا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل 2022ء  کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا۔نیب ترمیمی بل کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔جہاں جرم کا ارتکاب ہوگا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔ نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔پہلے 90 دن کا ریمانڈ دیا جا سکتا تھا۔ نیب دھوکا دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100 سے زیادہ ہو۔ چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں بھی ایک برس کی کمی کر کے اسے 3 سال کر دیا گیا تھا۔اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا جس پر انٹرا کورٹ اپیل دائر ہوئی اور گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں لارجر بینچ نے نیب ترامیم بحال کر دیں۔جس کے بعد نیب ترامیم کا قانون گزشتہ روز سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ہر دور حکومت میں نیب کی کارکردگی پر عدلیہ کی طرف سے مایوسی کا اظہار کیا جاتا رہا۔سیاستدان بھی اس پر کڑی تنقید کرتے رہے۔ کئی بڑے لیڈروں کی طرف سے اسے بند کرنے کے بھی مطالبے سامنے آتے رہے۔نیب کے بارے میں عمومی رائے بن چکی تھی کہ اس کے ذریعے مخالفین کوانتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آئین کے مطابق نیب کی حیثیت خود مختار ادارے کی تھی مگر اس کے سربراہان حکومتی ایجنڈے پر عمل پیرا دکھائی دیتے رہے۔نیب کے کردار کا پارلیمنٹ کو تفصیلی جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ انصاف کے تقاضے پورے کر رہا ہے‘ یا اسے سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ حکومتیں اسے اپنے مفادات اور سیاسی انتقام کیلئے استعمال کرتی آئی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت چیئرمین نیب کو بااختیار تو بنایا گیا مگر انہیں آزادانہ کام نہیں کرنے دیا گیا۔ جب تک نیب کا ادارہ بااختیار نہیں بنایا جائیگااور اسکے قوانین موثر نہیں ہونگے‘ اس کے ماتحت حقیقی احتساب کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔

ای پیپر دی نیشن