دفاعِ وطن اور امن و خوشحالی کیلئے ملک کی سول اور عسکری قیادتوں کا عزمِ صمیم

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مادر وطن کے بہادر سپوتوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ پاکستان کی حفاظت‘ ترقی‘ امن اور خوشحالی ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ روز یوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر اپنی آزادی‘ خودمختاری اور قومی مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریگا۔ ہم دہشت گردی اور اسکے سہولت کاروں کے مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ 
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی میزبانی میں منعقدہ اس تقریب میں ویزراعلیٰ پنجاب مریم نواز‘ وفاقی کابینہ کے ارکان‘ وزیراعظم آزاد کشمیر‘ اعلیٰ سول و عسکری حکام‘ ارکان پارلیمنٹ، شہداء کے اہل خانہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی دیگر شخصیات نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ یوم دفاع ہماری قومی شناخت اور عظیم حوالہ ہے۔ یہ دن ہماری اس قومی حمیت کی یاد دلاتا ہے جس سے سرشار ہو کر عظیم قوم نے طاقت کے زعم میں مبتلا دشمن کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیئے تھے اور لاہور جمخانہ میں چائے پینے کا خواب دیکھنے والا دشمن اسلحہ پھینک کر اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ فرار ہو گیا تھا۔ ہم عظیم مائوں کے بہادر بیٹوں کی قربانیاں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دینگے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے قومی پرچم میں سبز اور سفید رنگ مل کر پاکستان بنتا ہے اور ہماری افواج میں یہ دونوں رنگ موجود ہیں۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو اپنے کسی ہمسائے کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔ 
وزیراعظم کے بقول ملک میں جہاں جہاں خوارج موجود ہیں اور جو بھی انکی سہولت کاری کر رہے ہیں‘ ان سب کے مکمل خاتمہ تک افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے اپریشنز جاری رکھیں گے جس کیلئے قومی اتفاق رائے موجود ہے۔ میاں شہبازشریف کا کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی جمہوری معاشرے میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے‘ ہمیں اس کا پورا احترام ہے۔ مگر اس حق کا استعمال آئین کی حدود میں ہونا لازم ہے۔ ہمارے 77سال کے تجربات کا یہی آزمودہ سبق ہے کہ گالی یا گولی کسی مسئلے کا حل نہیں‘ ہمیں ملک کیلئے ذاتی مفادات کی قربانی دینی چاہیے۔ 
اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم نے آزمائش میں پاک فوج کے ساتھ مل کر طاغوتی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں قربانیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو دہشت گردی کے مکمل خاتمہ تک جاری رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی شہ پر فساد فی الارض برپا کرنے والوں اور انکی معاونت‘ انکے جرائم کا جواز پیش کرنے اور ان کا دفاع کرنے والوں پر آئندہ بھی زمین تنگ رہے گی۔ دہشت گردوں کی حالیہ سرگرمیاں پاکستان کو ناکام بنانے کی سازش ہے مگر ماضی میں بھی قوم اور فوج نے باہمی اتحاد سے ایسے عناصر کو شکست دی تھی۔ وہ بیرونی طاقتوں کو آج بھی باور کرا رہے ہیں کہ عوام اور پاک فوج انکے عزائم اور منصوبے کبھی کامیاب نہیں ہونے دیگی۔ جنرل سید عاصم منیر نے باور کرایا کہ عوام پاک فوج کے شانہ بشانہ ہیں اور ہم مل کر ملک کا دفاع کرتے رہیں گے۔ اس تقریب سے قبل وزیراعظم اور آرمی چیف نے شہداء کی یادگار پر حاضری دی اور پھول چڑھائے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قومی اتحاد و یکجہتی ہی ملک کی سلامتی‘ قومی معیشت کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے جبکہ ہماری سلامتی کے شروع دن سے درپے ہمارا دشمن بھارت اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے قومی اتحاد و یکجہتی میں نقب لگا کر اسے توڑنے اور کمزور کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے جس کیلئے وہ ملک کے اندر موجود عناصر کو اپنا آلہ کار بنا کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشیں پروان چڑھاتا ہے۔ ایسی خانہ ساز سازشوں کا نتیجہ ہی ہمیں 1971ء میں سانحہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا جبکہ بھارتی عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ساتھ مل کر کی گئی ان اندرونی سازشوں نے 71ء کی جنگ میں پاکستان کیلئے ہزیمتوں کا اہتمام کیا اور اندرا گاندھی کو یہ بڑ مارنے کا موقع فراہم کیا کہ ہم نے آج دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ ایسی خانہ ساز سازشوں کے باعث پاک فوج کا مورال ڈائون ہوا اور اسکے ہزاروں جوان بھارت کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گئے۔ تاہم سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے قومی اتحاد و یکجہتی کے جذبے کا احیاء کیا اور پڑمردہ قوم اور اسکی ڈوبتی معیشت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے باقیماندہ پاکستان کو بھارتی عزائم کے توڑ کیلئے ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا بیڑا اٹھایا اور عسکری قیادت نے انکی بھرپور معاونت کی چنانچہ ہم ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہوئے اور اپنے سے چار گنا بڑی فوج رکھنے والے بھارت کے مقابل اپنے بھرپور دفاع کے قابل ہو گئے۔ 
بے شک بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں اب تک کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر ہماری ایٹمی صلاحیت کی بنیاد پر ہی اسے 71ء کے بعد اب تک پاکستان پر کوئی نئی جنگ مسلط کرنے کی جرات نہیں ہوئی اور اپنی ہر سازش کے جواب میں اسے منہ کی کھانا پڑی ہے۔ اس تناظر میں دشمن نے پاکستان کیخلاف اپنی سازشیں بہرحال برقرار رکھی ہیں۔ کبھی وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے اس پر آبی دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے جس کیلئے اسے پاکستان کے اندر سے اپنے آلہ کار دستیاب ہو جاتے ہیں جبکہ گزشتہ تین دہائیوں سے وہ پاکستان میں دہشت گردی کی فضا بھی گرمائے ہوئے ہے اور اس گھنائونے منصوبے میں بھی اسے پاکستان کے اندر سے سہولت کاری حاصل ہو رہی ہے۔ 
بدقسمتی سے گزشتہ دس بارہ سال کے عرصہ میں ملک میں بلیم گیم اور محاذآرائی کی سیاست انتہائوں کو چھونے لگی ہے جس میں بادی النظر میں پی ٹی آئی اور اسکے بانی چیئرمین کا کلیدی کردار ہے۔ اس سیاست نے ہی بھارت کو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اسے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ سے دوچار کرنے سازشوں کا نادر موقع فراہم کیا جس کیلئے اسکی ایجنسی ’’را‘‘ نے بلوچستان اور خیبر پی کے میں اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف ایجنڈا رکھنے والے افغانستان کی سابقہ اور موجودہ حکومت کو بھی اپنا ہمنوا بنایا جبکہ بانی پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان کیخلاف بغض معاویہ رکھنے والے طالبان کی سرپرستی کی جنہوں نے ملک میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں سے ملک کے شہریوں بالخصوص سکیورٹی اہلکاروں کو لہولہان کرنا شروع کر دیا۔ اسی فضا میں بھارت کی مودی سرکار کو مزید شہ ملی جو اب بلوچستان میں سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے جبکہ گزشتہ سال 9 مئی کے سانحہ سے بھارت اور ملک کے دوسرے اندرونی اور بیرونی بدخواہوں کو قوم اور افواج پاکستان کا اتحاد توڑنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا نادر موقع حاصل ہوا۔ ان گھنائونی سازشوں کے ادراک نے ہی قوم‘ قومی سیاسی قیادتوں اور افواج پاکستان کے مابین اتحاد و یکجہتی کو مزید مضبوط بنایا ہے جو آج دفاع وطن کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن چکا ہے۔ 
گزشتہ روز یوم دفاع کی تقریب میں ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے اسی تناظر میں ملک کے بدخواہ سیاسی عناصر‘ انکے سوشل میڈیا ونگ اور انکے تمام اندرونی و بیرونی سہولت کاروں کو دوٹوک الفاظ میں ملک کے دفاع و سلامتی پر کسی قسم کی مفاہمت نہ کرنے کا ٹھوس پیغام دیا ہے۔ انہیں اپنی سیاست اور ملک کی سلامتی عزیز ہے تو انہیں ملک اور اسکے اداروں کیخلاف اپنی خانہ ساز سازشیں ترک کرنا ہونگی بصورت دیگر آئین و قانون کی عملداری نے اپنا راستہ اختیار کرنا ہی کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن