لاہور (سلمان غنی / مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وفاقی وزیر داخلہ مسلم لیگی رہنما ملک نسیم احمد آہیر نے 18 ویں آئینی ترمیم کو پاکستان کے نظریاتی تشخص پر اثرانداز ہونے کی منظم کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوتی تو ملی بینڈ کی ٹیلی فون کالوں کی ضرورت نہ پڑتی، قرارداد مقاصد کو چھیڑنے سے اس لئے احترازبرتا گیا کہ اسے چھیڑا جاتا تو ملک میں طوفان آ جاتا، 18 ویں ترمیم کے ذریعہ آزاد عدلیہ کے پر کاٹ دئیے گئے، پختونخوا کا نام تسلیم کرکے بین الاقوامی ایجنڈا کی تکمیل اور خود پاکستان کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ کوئی مسلم لیگی اس کا حامی نہیں، ضیاءالحق کا نام آئین سے نکالنے والے اس کا تاریخی کردار ختم نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں مشرف ایجنڈا جاری ہے، کیری لوگر بل اور بلیک واٹر کے خلاف عوامی ردعمل سے امریکہ ٹھٹھک گیا۔ بھارت کو دوست سمجھنا سب سے بڑی نادانی ہو گی۔ ایساکہنے والے لالی وڈ بالی وڈ ٹائپ لوگ ہیں جو بھارت کی علاقائی بالادستی چاہتے ہیں۔ ضیاءالحق جونیجو دور میں انڈین ہم سے مذاکرات کیلئے وقت مانگتے تھے آج ہم ان کے سامنے مرے جاتے ہیں ہمیں اس پر شرم بھی نہیں آتی۔ حالات بارود کا ڈھیر ہیں جو کسی وقت بھی پھٹ سکتے ہیں۔ صوبوں کی انتظامی تقسیم میں اضافہ کے ذریعہ گورننس بہتر بنائی جا سکتی ہے وہ وقت نیوز کے پروگرام اگلا قدم میں سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔ پروگرام کے پروڈیوسر میاں شاہد ندیم تھے نسیم آہیر نے کہا کہ ملک کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لئے سیکولر فورسز کا گٹھ جوڑ ہو چکا ہے کراچی سے خیبر تک ایک غیر مقدس ناپاک ایجنڈا شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑا سا انتظارکریں اس وقت اصل مسئلہ یہی ہے کہ اس وقت وہ قیادت موجود نہیں ہے جو عوام کی قیادت کر سکے۔ موجودہ جماعتوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ جب بھی ملک میں سیاستدان آئے انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا ذمہ دار ایک ہی ہے وہ ہے امریکہ۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کا آغاز جنرل ضیاءکے دور میں ہوا اور مجھے جس روز وزیر داخلہ بنایا گیا اس روز 4 دھماکے ہوئے تھے جن میں 11 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ وہ دھماکے خاد اور روسی کے جی بی کرا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کا نظریہ اور پیپلز پارٹی کا نظریہ ایک ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل فضل حق نے باقاعدہ طور پر چیف جسٹس کو بلا کر کیس تیار کرایا کہ کالا باغ ڈیم سرحد کو منظور نہیں۔ اس دن کے بعد سے اس پراتفاق رائے نہیں ہو سکا۔