حافظ حسین احمد جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ سے پھر محروم
حافظ حسین احمد کا جمعیت میں طوطی خوب بولتا تھا بسا اوقات تو مولانا فضل الرحمن بھی ان کے سامنے بے بس ہو جاتے تھے لیکن پھر بلوچستان میں شیرانی گروپ نے ایسا ”شیر“ چھوڑاکہ حافظ صاحب کو دیوار سے لگا دیا اور یوں حافظ حسین کے طوطی کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔ بلوچستان سے مولانا عبدالغفور حیدری بھی سوتنوں کی طرح حافظ حسین کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ ویسے بھی مولانا ڈیزل کو ہر وہ آدمی اچھا نہیں لگتا جو ان کے سامنے حقائق سے پردہ اٹھائے، جو انکے اشارے پر ناچے انہیں وہ سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں مولانا ڈیزل کے قریبی بندوں نے انہیں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا کہا تھا لیکن مفاد پرستوں نے پھر مولانا جُبہ و دستار کو رام کر لیا۔
مینار پاکستان کا جلسہ کامیاب کروانے میں حافظ حسین احمد کا بڑا ہاتھ تھا، وہ جمعیت کا ہنس مُکھ شہزادہ ہے لیکن ڈیزل نہ بیچنے کے باعث آج انکے ساتھ بُرا سلوک کیا جا رہا ہے۔ حافظ صاحب کی خاموشی سے ایک ہی صدا آ رہی ہے .... ع
قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
حافظ حسین کو مصلحت کی خاموشی توڑ کر ”شیرانی“ کے ”شیر“ کیخلاف میدان میں آنا چاہئے اور جے یو آئی کو یہ حلقہ اوپن چھوڑ دینا چاہئے تاکہ سب امیدواروں کو اپنی اپنی اوقات کا علم ہو جائے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہسپتالوں میں گاڑیوں سے پارکنگ فیس وصول کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
خادمِ پنجاب نے ہسپتالوں میں فری پارکنگ دے کر دکھی انسانیت کی اعلیٰ خدمت کی تھی اب پھر پارکنگ فیس کے ٹھیکے ہونگے، پٹائی ہو گی اور عوام لُٹتے رہیں گے۔ سیٹھی صاحب براہِ مہربانی سیٹھوں والے فیصلے مت کریں بلکہ مریضوں کا تو کم از کم خیال رکھیں۔ پارکنگ فری سے مریضوں کے لواحقین ذہنی سکون حاصل کر لیتے تھے۔ اب وہ فیس دیکر مزید ڈیپریشن کا شکار ہو جائینگے۔ نگران حکمرانوں کا کام تو صرف نگرانی کرنی ہوتی ہے۔ سیٹھی صاحب کو نگرانی کرنی چاہئے تھی کہ پارکنگ فری کا بورڈ لگا کر کوئی پیسے تو نہیں بٹور رہا لیکن اب انہوں نے خود ہی لٹیروں کیلئے چور دروازہ کھول دیا ہے۔ پارکنگ کی جگہوں پر اب سابق وزیر اعلیٰ کی تصویر لگا کر نیچے یہ شعر لکھ دینا چاہئے ....
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس بڑی بے قرار گزرے گی
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
اقتصادی منصوبہ بندی کا سبق پاکستان سے سیکھا اور اس پر عملدرآمد کیا ۔ سفیر جنوبی کوریا
ہم سے سیکھ کر دُنیا آسمان پر پہنچ گئی لیکن ہم پہلے سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں۔ جنوبی کوریا نے ہم سے سبق سیکھا اور اسے یاد کر کے پاس ہو گیا لیکن ہم دوسروں کو سبق دیتے دیتے خود دوسروں کیلئے سبق بن گئے ہیں۔ آج ہماری اقتصادی حالت اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ کمزور سے کمزور ملک بھی ہمیں مات دے چکا ہے۔ اسکے ذمہ دار عوام نہیں بلکہ سیاستدان اور آمر ہیں۔ ہر آمر کو سیاستدانوں نے کندھا پیش کیا جس بنا پر ہم پستی کے دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ اشرف نوید رائیکا تحصیل پھالیہ نے سرراہے کیلئے چند اشعار بھیجے ہیں جو ملک کی موجودہ صورتحال پر صادق آتے ہیں ....
اپنا ملک جمہوریت و آمریت کے درمیاں
عفریت کے جبڑوں میں کوئی بسمل جاں ہو جیسے
اُدھر نوید پری پیکر کے دل فریب تبسم
اِدھر ہم پر آسیبِ خوف کا گماں ہو جیسے
ہمیں تو آمریت نے کمر ہی سیدھی نہیں کرنے دی، ورنہ ہم بھی ستاروں پر کمندیں ڈال چکے ہوتے۔ جب بھی ترقی میں انگڑائی لینے کی کوشش کی تو آسیب کی طرح آمروں کا سایہ پیچھے پڑتا نظر آیا ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
پاکستانی نژاد ڈاکٹر مہرین فاروقی پہلی مسلم خاتون آسٹریلوی رکن پارلیمنٹ منتخب !
”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“
پاکستان کی مٹی بڑی زرخیز ہے، اس کے باسیوں نے بڑے بڑے پہاڑ سر کئے ہیں۔ بیرون دنیا میں ان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پاکستانی نژاد ڈاکٹر مہرین فاروقی نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر آسٹریلوی پارلیمنٹ میں قدم رکھا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ میں لارڈ نذیراور بیرونیئس سعیدہ وارثی پاکستان کا مقدمہ بڑے احسن انداز سے لڑ رہے ہیں۔ ہم ڈاکٹر مہرین فاروقی کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ سبز ہلالی پرچم کی عزت دوبالا کریں گی اور پاکستان کے نام کو بلند کر کے آسٹریلیا کی پارلیمنٹ سے اس کی توقیر کے فیصلے کروائیں گی۔ کاش کہ پاکستان میں بھی ہم اپنی خواتین کو یوں مواقع فراہم کرتے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
خاموش اکثریت کی ترجمان بن کر میدانِ سیاست میں آئی ہوں : بادام زری
بادام زری تینوں ربّ دیا رکھاں
بادام زری ایسے علاقے سے جمہوریت کے میدان میں کودی ہیں جہاں پر عورتوں کیلئے ووٹوں کا نام لینا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ بادام زری نے قبائلی علاقے سے اس وقت جمہوریت کا پرچم بلند کیا ہے جب طالبان کے خوف سے وہاں ووٹوں کا نام لینا بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
بادام زری خواتین کے حقوق کیلئے باہر نکلی ہیں جمہوریت پسند قوتوں کو اس کا ساتھ دینے کیلئے میدان میں اترنا چاہئے۔ قبائلی علاقے میں اگر خواتین بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کریں تو یقینی طور پر انقلاب آ جائے گا۔ اس انقلاب سے خیبر پی کے، وزیرستان اور دیگر علاقوں سے خوف کے بادل ختم ہوں گے۔
بادام زری تو باہر نکل آئی ہیں اب الیکشن کمشن بھی قبائلی علاقوں تک جائے اور خواتین کیلئے آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرنے کے اقدامات کرے اور بادام زری کو سکیورٹی مہیا کی جائے تاکہ وہ کھل کر الیکشن کمپین چلا سکیں۔