ان دنوں فیصل آباد کا کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں بڑی تیزی کے ساتھ محلوں ,گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر نو اور مرمت کا کام نہیں ہو رہا,ایک بات بڑی دلچسپ ہے کہ ان گلیوں اور محلوں کی سڑکوں کی تعمیر نو کو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ورک آرڈر کے ذریعے ٹھیکیداروں سے کام کرایا جا رہا ہے کیونکہ قانون میں یہ شک موجود ہے کہ مجاز اتھارٹی بلا ٹینڈر طلب کئے ایک مقررہ حد کی مالیت کے تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں پے آرڈر کے ذریعے کام کر سکتی ہے او ریہ تمام ورک آرڈر ایڈہاک بنیاد پر جاری کئے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد کی تمام آبادیوں خصوصاً ان آبادیوں میں تعمیر و مرمت کا کام دن رات جاری ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ورک آرڈر کی بنیاد پر ہونے والے تعمیرنو کے کاموں کو انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل یا گیارہ مئی سے قبل مکمل کرانے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے اور یہ پرو پیگنڈہ بھی بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے کہ تعمیر نو اور مرمت کا کام در اصل پنجاب کی حکمران مسلم لیگ کے رکن سابق قومی اور صو بائی اسمبلی کی تجاویز اور ہدایات پر ہو رہا ہے,الیکشن سے قبل اراکین اسمبلی جو فنڈز جاری کئے تھے انہی فنڈز سے یہ تعمیر نو اور مرمت کا کام جاری ہے لیکن اس وقت پورے شہر میں تعمیر نو اور مرمت کا جو کام جاری ہے وہ اس قدر ناقص اور نا پائیدار ہے کہ فنڈز کے ضیاع کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا اور پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت ہنگامی انداز میں جو تعمیر نو اور مرمت کا کام ہو رہا ہے وہ گیارہ مئی تک بھی اپنی اصل حالت میں رہے گا یا پہلے سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مزید بلدیاتی مسائل کا باعث بنے گا تعمیر نو اور مرمت کا کام پوش علاقوں کی بھی ہو ا ہے اور ہو رہا ہے تو انداز تعمیر نو ایک جیسا یعنی انتہائی ناقص ہے اور جو میٹریل استعمال ہو رہا ہے وہ نہ صرف ناقص بلکہ اس کی کوئی کوالٹی اور معیار نہیں ہے ۔ لیکن ٹھیکیداروں کے لئے اپنی آمدن میں اضافہ کا سیزن ہے اور اس سیزن سے ٹھیکیداروں کے ساتھ کمیشن حاصل کرنے والے ملازمین بھی دونوں ہاتھوں سے اپنی تجوریوں کو بھرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں تعمیر نو اور مرمت کے حوالہ سے پوش علاقہ میں ہونے والے مرمت کے ایک کام کی قارئین نے اپنے مراسلات میں نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری کاغذات میں سر فضل حسین روڈ جو کہ سلیمی چوک سے شروع ہو کر پیپلز کالونی ڈی گراﺅنڈ ریڈیو پاکستان تک جاتی ہے او رپیپلز کالونی نمبر ایک کی اہم شاہراہ ہے فیصل آباد چوک عبد اللہ پور میں انڈر پاس کی تعمیر شروع ہوتے ہی جڑانوالہ روڈ مدینہ ٹاﺅن اور دیگر علاقوں کی ٹریفک کو متبادل راستہ دینے کےلئے سر فضل حسین روڈ کو جو کہ جنگل سنگھ والا روڈ بھی کہلاتی ہے اور چوک ریڈیو پاکستان سے سلیمی چوک تک یہ دو رویہ شاہراہ ہے اسے جی ٹی روڈ کا درجہ دیا گیا اور تمام ٹریفک جس نے شہر آنا اور جانا تھا یہی متبادل واحد راستہ تھا ۔ یوں سر فضل حسین روڈ المعروف جنگل سنگھ والا روڈ پر ٹریفک کا اس قدر دباﺅ پڑا کہ پیپلز کالونی کی یہ شاہراہ جو کہ ا نڈر پاس کی تعمیر شروع ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہی تھی وہ ٹریفک کا دباﺅ بر داشت نہ کر سکی اور تیزی کے ساتھ ہیوی وہیکلز کے دباﺅ کی بھینٹ چڑھ کر تباہ حالی کا شکار ہو گئی کہ اچانک پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے فیصل آباد کا دورہ رکھ لیا اور انہوں نے اپنے دورہ فیصل آباد کے دوران جس روٹ کو استعمال کرنا تھا اس میں سر فضل حسین روڈ سر فہرست تھا جو کہ قدم قدم پر گہرے کھڈوں کی وجہ سے وی آئی پی کی سواری کے قابل نہیں رہا جبکہ اس شاہراہ کی ناقص تعمیر کا یہ عالم ہے کہ اس شاہراہ پر نکاسی آب کا کوئی موثر نظام قائم نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں بھی بارش ہونے کی صورت میں یہ شاہراہ پانی والی ٹینکی سے فٹ بال سٹیڈیم اور سپورٹس کمپلیکس تک نہر کی صورت اختیار کر لیتی تھی اور اب بھاری بھر کم ٹریفک کے ازدہام کی وجہ سے مزید گہرے کھڈوں کا شکار ہو گئی‘ ضلعی حکومت نے وزیر اعلیٰ کی آمد کے موقع پر ہنگامی بنیادوں پر جو مرمت کا کام کرایا گزشتہ دنوں فیصل آباد میں ہونے والی معمولی بارش نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی اور مرمت ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی کا وائٹ پیپر بن کر عام کے سامنے آگئی۔ پیپلز کالونی نمبر ایک اور ملحقہ آبادیوں کی بڑی تعداد سر فضل حسین المعروف جنگل سنگھ والا روڈ پر آمد و رفت کےلئے استعمال کرتی ہے لیکن مرمت پر فنڈز ضائع کرنے کے باوجود اس وقت یہ دو رویہ شاہراہ کھڈوں سے بھری پڑی ہے اور بارش کا پانی نکاسی آب کا کوئی نظام نہ ہونے کی بناءپر شہریوں کےلئے وبال جان بنی ہوئی ہے شہریوں کا ڈی سی او فیصل آباد اور ڈویژنل کمشنر فیصل آباد سے یہ مطالبہ جائز ہے کہ اس اہم شاہراہ میں پڑے ہوئے کھڈوں اور گڑھوں کی فوری تعمیر کرائی جائے کیونکہ ان کی وجہ سے اس شاہراہ پر ٹریفک کے جو حادثات رو نما ہو رہے ہیں ان پر قابو پایا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس اس شاہراہ کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے حد رفتار مقرر کرے کیونکہ بعض حادثات تیز رفتاری کے باعث بھی پیش آتے ہیں ویسے بھی یہ کوئی مین شاہراہ نہیں ہے بلکہ رہائشی آبادی کے قلب میں یہ شاہراہ ہے اور ایسی شاہراہوں پر رفتار کی ایک حد مقرر ہوتی ہے فیصل آباد ٹریفک پولیس کو اس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اس اقدام سے بھی ہونے والے ٹریفک حادثات پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ فیصل آباد میں جہاں دیگر آبادیوں میں انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر نو اور مرمت کے ترقیاتی تعمیراتی کام جاری ہےں ان میں ترجیحی بنیادوں پر سر فضل حسین جنگل سنگھ والا روڈ کو بھی شامل کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ تو سہولت میسر ہو سکے....!