زرعی یونیورسٹی فیصل آباد گزشتہ پانچ برسوں سے کمیونٹی سروسز اور کسان کی دہلیز تک جدید زرعی ٹیکنالوجی پہنچانے کے جس میگا پروگرام کو رواج دے رہی ہے اس سے نہ صرف سائنس دانوں کو اپنی مہارتیں اور ٹیکنالوجی کو آزمانے ‘ مارکیٹ کرنے اور مختلف حالات میں ان کے نتائج کو پرکھنے کے مواقع حاصل ہورہے بلکہ کسانوں اور مویشی پال حضرات کو بھی قابل عمل بہتر پیداواری ٹیکنالوجی تک رسائی میں رہنمائی اور سہولت فراہم ہورہی ہے۔ پاکستان میں اجناس کی 0.9فیصد شرح نمو 1.7فیصدکی رفتار سے بڑھنے والی آبادی کے مقابلہ میں .8فیصد کم ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی کیلئے فوڈ سیکورٹی کے چیلنجز مزید شدت کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ زرعی پیداوار اور ضرورت میں بڑھنے والے اس خلاءکو پر کرنے کے حوالے سے زرعی یونیورسٹی نہ صرف فیصل آبادبلکہ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی جدید ٹیکنالوجی اور طرز زراعت متعارف کروا رہی ہے۔ اس حوالے سے سال میں خریف و ربیع فیسٹیولز میں کسان میلوں‘ زرعی و صنعتی نمائش‘ فینسی برڈز شو‘ پٹ شو‘ گرے ہاونڈ ریس‘ جانوروں میں خوبصورتی اور زیادہ دودھ کے مقابلے‘ نیزہ بازی‘ بیل دوڑ وغیرہ جیسا دلچسپ اور خوبصورت مقابلے باقاعدگی سے منعقد کروارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران منعقد ہونے والے جشن بہاراں نے کامیابیوں کے نئے سنگ میل قائم کر دیئے ہیں۔چھ روزہ جشن بہاراں میں مذکورہ سرگرمیوں کی خوبصورت جھلک کے ساتھ ساتھ جشن بہاراں کسان میلہ بھی اپنی تمام خوبصورتیوں اور دیہی رنگوں کے ساتھ انعقاد پذیر کیاگیا۔ وائس چانسلرڈاکٹر اقرار احمد خاں کی صدارت میں منعقدہ پروگرام کے مہمان خصوصی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلرڈاکٹر نذیر احمد سانگھی تھے جبکہ حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ریسرچ ڈاکٹر نور الاسلام خان اور ڈائریکٹر جنرل توسیع ڈاکٹر انجم علی بٹر نے مہمانان اعزاز کے طو رپر شرکت کی۔اپنے خیرمقدمی کلمات میں وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے بتایا کہ انکا ادارہ گزشتہ پانچ برسوں سے سال میں دو مرتبہ ربیع و خریف فیسٹیول منعقد کروا رہا ہے جس میں صوبے کے مختلف اضلاع کے ہزاروں کسان‘ مویشی پال حضرات ‘ زرعی انڈسٹری سے وابستہ ادارے و شخصیات اور حکومتی ذمہ داران شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کسانوں کی وکالت بڑے موثر انداز میں کر رہی ہے تاکہ نہ صرف کسان کی پیداوار میں اضافہ ہوسکے بلکہ اسے بہترو مسابقتی مارکیٹنگ کی سہولیات تک بھی رسائی ہو۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی سائبرایکسٹینشن اور فرٹیلائزرکال سنٹرز کے ذریعے کسانوں کی رہنمائی کر رہی ہے تاکہ فصلوں کو اتنی ہی کھاد فراہم کی جائے جتنی اسے حقیقتاً ضرورت ہے۔ڈاکٹر اقرار نے بتایا کہ وہ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں اپنے سب کیمپس قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہاں کی زراعت کو نئی جدتوں سے ہمکنار کیا جا سکے۔ان کاکہنا تھا کہ پاکستان میں گیس اور بجلی کا بحران خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے لہٰذا کسانوں کو بائیوگیس کے ذریعے توانائی کی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد محمود نے بتایا کہ گزشتہ سال ملکی تاریخ میں کپاس کی 14.7ملین گھانٹوں کے ساتھ ریکارڈ پیداوار ہوئی جس کی وجہ ملکی زراعت کو خاطرخواہ سہارا ملا۔ کسان میلہ میں انکشاف کیاگیا کہ پاکستانی پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار امریکہ اور بھارتی پنجاب سے بھی زیادہ ہے جسے دیکھ کر ماضی قریب میں یہاں کا دورہ کرنے والے امریکی سائنس دان بھی حیران و شسدر رہ گئے تھے۔کسان میلہ میں بہترین کوالٹی کے زرعی مداخل کی ارزاں خرید اور بعد از برداشت مارکیٹنگ میں آڑھتی مافیا کے کردار کو محدود کرنے کیلئے کسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے اور آمدہ انتخابات میں بہترزرعی پالیسی کی حامل سیاسی قیادت کو سامنے لانے پر بھی زور دیاگیا۔مہمان خصوصی ڈاکٹر نذیر ا حمد سانگھی نے کسانوں کو ملک سے افلاس اور بھوک ختم کرنے جیسا عظیم کام سرانجام دینے والا طبقہ قرار دیتے ہوئے کسان میلہ منعقد کرنے پر یونیورسٹی انتظامیہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے ایسی سرگرمیوں کے حوالے سے نہ صرف اپنی سپورٹ کا وعدہ کیا بلکہ یونیورسٹی کے ساتھ ملکر کام کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ڈائریکٹر جنرل توسیع ڈاکٹر انجم علی بٹر نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال دالوں کی 15لاکھ ٹن ضرورت کے مقابلہ میں 10لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہورہی ہے لہٰذا پانچ لاکھ ٹن دالوں کی درآمد پر کثیرزرمبادلہ خرچ ہورہا ہے جسے زیادہ رقبہ دالوں کے زیرکاشت لاکربچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان پانچ برس پہلے تک مونگ برآمد کر رہا تھا جبکہ آج اس کی درآمدکی جا رہی ہے۔دوآبہ فاﺅنڈیشن لیہ کی نمائندہ فرحت پروین نے بتایا کہ آج کھادیں اور سپرے کسان کی قوت خرید سے باہر ہوچکے ہیں لہٰذا ان کی فاﺅنڈیشن آرگینک فارمنگ پر توجہ دے رہی ہے جس کیلئے انہیں یونیورسٹی سے بھرپور معاونت حاصل ہورہی ہے۔انہوں نے بتایاکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے انہیں گزشتہ چند سالوں سے کسان میلوں میں باقاعدہ مدعو کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی پیداواریت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔انگریزی روزنامہ کے نامور صحافی احمد فراز خان نے کہا کہ انہیں کسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک چھت تلے جمع دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی ہے ۔ انہوں نے کسانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہوکر مسائل کا حل نکالنے اور اپنے حقوق کیلئے حکومتی اداروں پر مربوط پریشرڈالنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہرچند پاکستان کی 70فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے تاہم 65برسوںکے دوران کسی زرعی پالیسی کا سامنے نہ آنا انتہائی افسوس کی بات ہے۔ تقریب کے دوران یونیورسٹی میں سینئر ٹیوٹر آفس کے زیرانتظام چلنے والے دی آرٹ کلب کے نوجوانوں نے عارفانہ کلام سمیت پنجاب کی میٹھی بولی میں دیہی موسیقی کے خوبصورت رنگ بھی پیش کئے۔