الیکشن 2013ءکے امیدوار اور سکروٹنی کی چھلنی!

Apr 09, 2013

احمد جمال نظامی

ڈاکٹر طاہرالقادری کے اسلام آباد لانگ مارچ کے نتیجے میں ان کی پاکستان عوامی تحریک کو کچھ نہیں ملا لیکن انہوں نے الیکشن 2013ءکے لئے کاغذات نامزدگی داخل ہونے کے بعد امیدواروں کی ایک طویل اور بے رحمانہ سکروٹنی کا جو بار بار مطالبہ کیا تھا اور جسے حکمران اتحاد کے نمائندوں نے لانگ مارچ کو ختم کرانے کیلئے بعض دیگر مطالبات سمیت تسلیم بھی کر لیا تھا اسکے نتیجے میں الیکشن 2013ءکے امیدواروں کو آئین کی دفعہ 62 اور 63 کی چھلنی سے گزارنے کا عمل نہایت بے رحمانہ انداز میں جاری ہے۔ انتخابات کے انعقاد کیلئے زیادہ وقت نہ ہونے کی وجہ سے امیدواروں کی سکروٹنی کیلئے طویل مدت یعنی ایک ماہ نہیں رکھا گیا البتہ ہفتہ عشرہ میں ہی یہ عمل خاصا تیز ہو گیا ہے اور 17اپریل کو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل ختم ہوتے ہی عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ ختم ہو جائے گا۔ پہلا مرحلہ کاغذات جمع کروانے کیساتھ مکمل ہو گیا تھا۔ 18اپریل تک امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے۔اس وقت سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خاں کے ایک حلقے اہل دوسرے سے نا اہل ٹھہرے۔ میاں محمد نوازشریف اور سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر و سابق وفاقی وزیر بیگم عابدہ حسین اور ماضی کے انتخابی معرکوں میں ان کے حریف و سابق وفاقی وزیر فیصل صالح حیات کے کاغذات نامزدگی نامنظور ہو چکے ہیں۔ مقابلے میں سید عابد امام نے کاغذات نامزدگی پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور پر جمع کرا رکھے تھے۔وہ بھی مسترد ہوگئے ۔دونوں نے ایک دوسرے پر پانی چوری کے الزامات ثابت کردئیے۔ اس طرح جھنگ کے کرنل(ر) عابد حسین کا نواسا عابد امام عملی سیاست میں پہلا قدم رکھنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا ۔ جھنگ سے ماضی قریب کے ایک رکن قومی اسمبلی اور سابق وفاقی وزیر شیخ وقاص اکرم کی اسناد میں سے پانچ مختلف اسناد پر اعتراضات لگے۔وہ بھی انتخابات سے باہر ہو گئے۔ قومی اسمبلی کے سابق رکن جمشید دستی جنہوں نے سپورٹس پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام کو چند برس پہلے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ وہ نہ صرف جعلی ڈگری پر آ¶ٹ ہو گئے ہیں بلکہ دھاڑیں مار مار کر اپنے غریب ہونے اور ملک میں جاگیردارانہ نظام کی گرفت مضبوط ہونے کا موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر سے سیاسی خار کی وجہ سے نہ صرف پیپلزپارٹی کو چھوڑ دیا تھا بلکہ ضلع مظفرگڑھ کے دو حلقوں سے آزاد امیدوار کے طور پر ایک حلقے پر حنا ربانی کھر کو اور دوسرے حلقے میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل پنجاب کے صدر(اور مسلم لیگ(ن) کے حمایت یافتہ) ملک غلام مصطفےٰ کھر کو ہرانے کا دعویٰ کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے سابق ارکان محسن گیلانی اور عامر یاروران کو عدالت نے الیکشن 2008ءمیں جعلی ڈگریوں پر الیکشن لڑنے اور جیتنے پر پس دیوار زندان بھیجنے کا حکم دے دیا ہے لیکن وہ دونوں روپوش و اشتہاری ہیں۔سلمان محسن گیلانی اور میر بادشاہ قیصرانی بھی الیکشن کمیشن کو دھوکا دے کر اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں ق لیگ کی بڑھ چڑھ کر بولنے والی رکن اسمبلی آمنہ الفت کی ڈگری بھی جعلی قرار دے دی گئی ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے کاغذات کی نامزدگی کا عمل مکمل ہونے تک بہت سے چہرے اور بھی بے نقاب ہو جائینگے۔ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو آئین کی دفعات 62 اور 63 سے گزارنا پاکستان کی سیاست میں ایک صحت مند تبدیلی ہو گی۔ اس سے اچھے لوگ سامنے آئیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کے بھی سیاست سے باہر ہو جانے کا امکان ہے۔ جعلی اسناد اور ڈگریوں کے حوالے سے ایک بات ابھر کر سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں ”بلڑ یونیورسٹی“ ہر دور میں اور ملک کے ہر حصے میں موجود رہی ہے اور جس طرح الیکشن 2002ءاور الیکشن 2008ءمیں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے امیدواروں پر گریجویٹ ہونے کی پابندی تھی اور اس کے باوجود بہت سے ایسے افراد اسمبلیوں میں پہنچ گئے تھے جو گریجوایٹ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ہم نام ایسے افراد کی اسناد تلاش کی تھیں جن کی ولدیت بھی ان سے ملتی تھی۔ ایسے افراد کے قومی شناختی کارڈ پر انکی تاریخ پیدائش تعلیمی اسناد کی تاریخ پیدائش سے مختلف رہی ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں کاغذات کی نامزدگی کے مواقع پر بالعموم ایسے کاغذات کی باریک بینی سے نامزدگی نہیں کی جاتی رہی۔ ہمارے مختلف ادوار میں ایسے افراد یقینا موجود ہیں جن کی تعلیمی اسناد جعلی ہو سکتی ہیں اور اب تمام اداروں میں نئی تقرریوں کے وقت امیدواروں کی حقیقی اسناد اور ان کے کوائف کی سکروٹنی ہونی چاہیے۔ یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو پروفیسر کے عہدہ تک پہنچے لیکن ان کی ابتدائی اسناد میں سے ایک آدھ سند جعلی تھی۔ سپریم کورٹ کے 1970ءکے عشرے میں مسٹر جسٹس صفدر شاہ ان ججوں میں شامل تھے جنہوں نے سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیلئے سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف دائر ہونے والی اپیل سنی تھی۔جن تین ججوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل منظور کی تھی اور انہیں اپنے فیصلے میں بری قرار دیا تھا۔ ان میں سابق چیف جسٹس محمد حلیم اور جسٹس دراب پٹیل کے علاوہ تیسرے جج جسٹس صفدر شاہ تھے حکمرانوں نے ان کی ڈگری بھی جعلی قرار دی تھی ۔جس پر جسٹس صفدر شاہ پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان اور وہاں سے مغربی ممالک میں چلے گئے تھے۔ ارباب حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں بھی تعلیمی اسناد کی سکروٹنی کو معمول بنائے۔

مزیدخبریں