الیکشن کمیشن زندہ باد!!

 یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی تو ضمیر کے مطابق اور میرٹ پر فیصلہ کرتا ہے۔ الیکشن کمشن کے فیصلوں اور بے رحم سکروٹنی سے کچھ نہ کچھ کرپشن کا صفایا ہونے کی امید بندھی ہے۔ لوٹا کریسی کی اصطلاح اور لوٹوں کی فریکوئنسی کے باوجود بے پیندے کے لوٹوں کو ہم نے آخری وقتوں میں پارٹیاں بدلتے اور وفاداریوں کو داغدار کرتے دیکھا۔ لوٹا ازم ہمارے ملک کا شرمناک کردار ہے۔ پانچ سال وزارتوں اور اقتدار کے مزے لوٹنے اور مال و متاع کھسوٹنے والے سیاستدانوں کو اسمبلیاں ٹوٹنے سے محض چند دن پہلے الہام ہوا اور فرشتوں نے آ کر بتایا کہ جس پارٹی کے ٹکٹ پر تم نے پانچ سال خوب لوٹ مار کی ہے اب یہ نہیں جیتے گی لہٰذا اس پر کرپشن کا الزام لگا کر تم تحریک انصاف یا ن لیگ میں چلے جاﺅ۔ شیخ وقاص اکرم، نبیل گبول، عظمیٰ بخاری اور ایک لمبی فہرست ہے ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں کی۔ ویسے تو ان پارٹیوں پر بھی آفرین ہے جنہوں نے ایسے لوگوں اور خود غرض سیاستدانوں کو آگے بڑھ کر گلے لگایا۔ کل کو پیپلز پارٹی یا ق لیگ معجزاتی طور پر جیت گئی جیسا کہ ممکن بھی ہے تو یہی لوگ معافیاں مانگ کر دوبارہ پی پی اور ق لیگ سے رجوع کر لیں گے اور وزارتوں کی دیگ میں منہ ماریں گے۔ ایسے لوگ کسی کے دوست اور وفادار نہیں ہوتے جب ن لیگ کی قیادت جیل میں تھی اور ملک چھوڑ کر چلی گئی تو اکثریت نے پرویز مشرف کی بنائی ہوئی جماعت کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ نواز شریف کے ساتھ چند لوگوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ ق لیگ کو پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت نے بڑی محنت سے منظم کیا۔ ان لوگوں کو عہدے اور وزارتیں دیں۔ مشرف دور سے لے کر 2013ءکی ابتداءتک ان لوگوں نے خوب گلچھڑے اڑائے ۔وہی جو کہتے تھے کہ نواز شہباز میں سیاسی بصیرت نہیں ہے۔ دونوں کی عقل کا خانہ کمزور ہے اور دونوں بھائیوں کے سر میں سریا ہے۔ اب وہی دونوں بھائیوں کے سب سے قریب اور پیارے ہیں۔ اسی طرح کل تک عمران خان کی سیاست کو ناقابل اعتبار سمجھنے والے آج جوق در جوق اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے مفاد پرست عناصر سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام یا پاکستان سے مخلص ہوں گے۔ آرٹیکل 62,63 کے مطابق یہ سراسر امیدوار کی نااہلی ہے۔ عین وقت پر وفاداری بدلنا اور اپنی پارٹی پر الزام لگانا اخلاقی بددیانتی بلکہ جرم ہے۔ ایسے لوٹوں کو گلے لگانا بھی کرپشن کو دعوت دینا اور اپنی پارٹی کو داغدار کرنے کے مترادف ہے جو اپنی پارٹی کا وفادار نہیں رہا وہ نئی پارٹی کا کیونکر وفادار رہ سکتا ہے۔ اس لئے آرٹیکل 62,63 ایسے سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ امید ہے کہ الیکشن کمشن اس صورتحال کا بھی جائزہ لے گا کیونکہ ملک کی باگ ڈور ایسے بدنیت افراد کے ہاتھ میں نہیں دی جا سکتی جو ذاتی اغراض اور مفادات کی خاطر بک جاتے ہوں۔  66 برسوں میں غور کریں کہ پاکستان آدھے سے زیادہ ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔اب بچا کھچا پاکستان الیکشن کمشن اور عوام کے رحم و کرم پر ہے۔البتہ الیکشن کا انعقاد ممکن نظر نہیںآتا۔ الیکشن سے قبل ہی خونریزی کا خدشہ ہے۔ دو بڑی شخصیات کی جان خطرے میں ہے ۔اسکے بعد الیکشن نہیں ہوں گے تاہم فی الحال تو الیکشن کے لئے محاذ گرم کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے سیاستدانوں میں آپ کسی پر تکیہ نہیں کر سکتے اور نہ کسی کی ایمانداری یا نیک نامی کی قسم کھا سکتے یہ سارے کے سارے ایک ہی حمام میں غسل کرنے والے ہیں لیکن الیکشن کمشن نے پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں یقیناً تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ امیدواروں کی جانچ پڑتال 62,63 کے تحت کی گئی ہے اور بے شمار سیاستدانوں کو سیاسی بساط سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ان میں تین جگہ سے پرویز مشرف کے کاغذات مسترد کئے گئے ہیں۔ جمشید دستی، شیخ وقاص اکرم، میر نادر مگسی، نوابزادہ محسن گیلانی، ذوالفقار افغانی، چودھری ریاض، عبدالقیوم، صبا صادق، عبدالخالق، رحمن اللہ، سلمان محسن گیلانی، میر بادشاہ قیصرانی وغیرہ کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جعلی ڈگریوں پر وزیر مشیر اور ارکان اسمبلی بننے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال گجرات میں سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود کے مقابلہ میں ن لیگ کا جعلی ڈگری پر جیتنے والا امیدوار تھا۔ الیکشن کمشن نے پہلی بار ایسے جعلسازوں کو پکڑا ہے۔ ان میں سردست جمشید دستی، سابق وفاقی وزیر ہمایوں کرد، خلیفہ عبدالقیوم کو سزائیں دی گئی ہیں اور اب یہ جیل کی ہوا پھانک رہے ہیں۔ ناصر شاہ کو اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ بادشاہ قیصرانی پر فرد جرم اور رضوان گل کو بھی سزا سنائی گئی ہے۔ مشرف دور میں امریکی تسلط، ڈرون حملے اور بم دھماکوں کے علاوہ جانشین زرداری حکومت نے ملکی تاریخ کی بھیانک کرپشن سے ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق 10 ارب ڈالر کی کرپشن نے پاکستان کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ حال ہی میں برطانیہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں 2012ءکا جائزہ لیں تو صرف اس ایک سال میں 48 ڈرون حملے ہوئے اور 1577 دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں۔ صرف ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے واقعات میں غیر طبعی اموات کی شرح دس ہزار سے تجاوز کر گئی۔ اس وقت پاکستان میں نہ بجلی ہے نہ گیس نہ پٹرول نہ پانی اور نہ امن۔ معیشت آخری ہچکیاں لے رہی ہے جبکہ دالیں گوشت کے بھاﺅ بک رہی ہیں اور سبزیاں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب آدمی دور سے گوشت اور پھل دیکھ کر منہ میں پانی لا کر رہ جاتا ہے۔ ساری فیکٹریاں کارخانے ٹھپ ہیں۔ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں کچھوے کی چال کی طرح کام چلتا ہے۔ ہر آدمی نڈھال، بیزار، مایوس اور دکھی ہے۔ کہیں امید کی کوئی لو جلتی دکھائی نہیں دیتی۔ لاقانونیت اور کرپشن کے ڈیرے ہیں۔ ناانصافی اور ظلم کی انتہا ہے۔ روزگار کے دروازے بند پڑے ہیں۔ سی این جی سٹیشنوں پر سناٹا ہے۔ فیکٹریوں پر تالے پڑے ہیں۔ بازاروں میں مندا ہے۔ ہر آدمی خوفزدہ اور سہما ہوا ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہے لیکن سیاستدانوں کے دن عید اور راتیں شب براتوں کی طرح گزر رہی ہیں۔ یہ سب بے رونقی، نحوست اور دہشت گردی اس لئے ہے کہ ہر بار عوام چوروں لٹیروں کو منتخب کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو دعویٰ اور پروجیکشن زیادہ، کام کم کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے آج پاکستان اپنی بربادی کا نوحہ پڑھ رہا ہے جو جعلی ڈگریوں اور دوہری شہریت پر عوام کے جذبات سے کھیلتے رہے ہیں۔ جنہیں علم سے کوئی سروکار نہیں۔ اسی لئے آج پاکستان میں جتنا صاحب علم کا استحصال ہو رہا ہے اور جتنی علم کی بے حرمتی ہو رہی ہے تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ تاہم یہ خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے کہ الیکشن کمشن نے بالآخر اس کا بھی ازالہ اور احتساب کر ڈالا۔ جعلی ڈگریوں پر بے شرمی سے رکن اسمبلی بننے، سنیٹر اور وزیر مشیر کے عہدوں سے لطف اندوز ہونے والوں کو گریبان سے پکڑ کر ہتھکڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں جمشید دستی، وقاص اکرم، عاقل شاہ، محسن گیلانی، عامر یار، میر بادشاہ قیصرانی، ہمایوں کرد، خلیفہ عبدالقیوم، ناصر شاہ، رضوان گل، اقبال لنگڑیال، علی مدد جتک، ظہور کھوسو، نسیم صابر کو سزائیں اور اکثر کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی فرح دیبا، صائمہ عزیز، افشاں فاروقی، ق لیگ کی آمنہ الفت اور ثمینہ خاور حیات، پی پی کی سفینہ صائمہ کے وارنٹ گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ الیکشن کمشن اگر بغور جائزہ لے تو سو سے زائد ارکان اسمبلی ابھی ایسے ہیں جن کی ڈگریاں مشکوک اور جعلی ہیں۔ جعلی ڈگریوں پر گرفتاریاں کافی نہیں، ضروری ہے کہ اس جرم پر کڑی سزائیں دی جائیں نیز ان پانچ سال میں جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر جو لوٹ مار کی ہے، جو تنخواہیں فنڈز مراعات اور کرپشن سے مال اکٹھا کیا ہے، وہ بھی واپس لیا جائے۔ اسی طرح دوہری شہریت پر بھی الیکشن کمشن نے ایکشن لیا ہے۔ دوہری شہریت پر جاوید ترکئی کو ایک سال قید کی سزا ہوئی ہے۔ دوہری شہریت کے حامل افراد کی تعداد بھی دو تین درجن سے کم نہیں ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا ہے کہ شفاف الیکشن نہ کرائے تو گھر چلے جائیں گے۔ الیکشن کمشن نے اچھے اور مضبوط کردار کا مظاہرہ کرکے عوام میں بڑھتی ہوئی بددلی کو کم کیا ہے لیکن ابھی الیکشن کمشن کو بہت چھان پھٹک کی ضرورت ہے۔ ابھی نقاب کے پیچھے کئی مکروہ اور گھناﺅنے چہرے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ .... .... اور پارسائی کی چادر اوڑھ کر، اپنے گناہوں پر پردہ ڈال کر ایک بار پھر قومی خزانہ پر نقب لگائیں، اس ملک کا گوشت تو نوچ نوچ کر کھا لیا ہے اب ہڈیاں بھی چیچوڑ کر کھا جانا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمشن نے 62,63 آرٹیکل کی شق پر پورا اترنے والوں کو کلین چٹ دی ہے لیکن کلین چٹ حاصل کرنے والوں نے اپنی فطری دھوکہ دہی سے الیکشن کمشن کو چکر دیا ہے اور یہ چکر ہمیشہ پاکستان کے لئے گھن چکر ثابت ہوا ہے۔ ویسے تو ریٹرننگ آفیسروں نے اقتدار کے خواب دیکھنے والوں کی اچھی خاصی طبیعت درست کی ہے مثلاً حنا ربانی کھر کو نامحرموں سے ہاتھ ملانے پر اعتراض کیا۔ عمران خان پر حلقہ این اے 56 کے شہری محمد حفیظ اعوان نے اعتراض کیا ہے کہ عمران خان نے جوا کھیلنے کا خود اعتراف کیا تھا۔ ایازا میر پر نظریہ پاکستان کے حوالے سے اعتراض کیا گیا۔ نواز شریف، عابدہ حسین، ارباب رحیم کی نااہلی کے لئے ایم اے غنی نے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ رینٹل پاور کیس کے حوالے سے راجہ پرویز اشرف پر اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمشن اور عدالتوں کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس دوران ریٹرننگ افسروں نے جو سوالات کئے ان میں ٹیکسوں کے علاوہ دینی معلومات اور ذاتی حوالے سے ان کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔ آج کل الیکشن کمشن نے امیدواروں کے پسینے نکلوا دئیے ہیں۔ خوشی ہے کہ الیکشن کمشن مستعدی اور جانفشانی سے کام کر رہا ہے۔ الیکشن کمشن زندہ باد۔ اگر وہ مکمل طور پر غیر جانبدار، منصف اور بے خوف بھی رہے....

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...