ڈھیلی ڈھالی نگران حکومتوں میں الیکشن کا بازار گرم ہے۔ ریٹرننگ افسروں کے سوالات پر امیدواروں کے جوابات میڈیا پر جگ ہنسائی بن رہے ہیں۔ عجیب و غریب سوالات ہو رہے ہیں۔ بعض اوقات ذاتی نوعیت کے سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔ نماز جنازہ ........ پڑھانے اور مردے کو غسل دینے کے طریقے بھی پوچھے جا رہے ہیں۔ آئین کی 62/63 شقوں کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ الیکشن کرانے والوں کو کرپٹ، نادہندہ، رسہ گیر قسم کے لوگوں کو الیکشن سے دور رکھنے کے لئے ان کی چھان بین کرنی چاہئے تھی اور عدالتوں میں ”کوئز پروگرام“ سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ اور پھر یہ سب کچھ عام قسم کے امیدواروں کے ساتھ ہو رہا ہے جنہیں انتخابات سے واقعتاً دور رکھا جانا چاہئے اور جو کئی کئی بار اسمبلیوں میں رہ کر مزے اڑا چکے ہیں بلکہ ”نام“ کما چکے ہیں ان کے کاغذات ڈگریوں سمیت درست قرار دے دئیے گئے ہیں۔ جعلی ڈگریوں پر بھی جمشید دستی جیسے عام آدمی بلکہ کسی حد تک غریب آدمی کو سزا سنائی گئی۔ ہم مجرموں کو سزا دینے کے حق میں ہیں مگر کمزور اور صرف عام آدمی کے لئے قانون حرکت میں نہیں آنا چاہئے۔ ابھی تک ایفی ڈرین کیس سمیت دیگر کرپشن کے اہم مقدمات میں شامل لوگوں کو نااہل نہیں کیا گیا۔ اگر عدالتیں اور دیگر تمام ادارے بالکل دیانتداری سے چھان بین کریں تو چند لوگوں کے سوا باقی تمام اراکین اسمبلی بڑے ”آرام“ سے نااہل ہو سکتے ہیں مگر ریٹرننگ افسران اپنی محافل جمائے ہوئے ہیں۔ ایچ ای سی، نیب اور دیگر ایجنسیاں اور ادارے یہ جانتے بوجھتے بھی کہ کون کون کیا ہے؟ نامی گرامی سیاستدانوں کو کلیئر قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق اب اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو شاید ”تیسری جنس“ کو موقع دینے پر آ سکتی ہے کہ خواجہ سراﺅں میں سے بھی بہت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ سب کو آزمانے کے بعد اگر عوام نے خواجہ سراﺅں میں سے کسی کو وزیراعظم کی نشست پر بٹھا دیا تو کیا ہو گا؟؟اب یہ تو عوام کا فرض ہے کہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ کون کون سے سیاستدان عوامی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ اگر اس بار بھی عوام نے آٹے گھی اور چند روپے لے کر اپنے ووٹ بیچ دئیے تو اگلے پانچ برسوں میں اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔الیکشن کا اچھا خاصا سیٹ لگا دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود الیکشن برپا ہونے پر شک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ الطاف حسین نے الیکشن کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے اور کسی حد تک یہ درست مطالبہ ہے کہ امیدواروں کی چھان بین کے لئے مزید مہلت درکار ہے۔ ابھی تک تو بہت کچھ جلدی جلدی نمٹایا جا رہا ہے اور کہنے والے یہی کہتے ہیں کہ صدر زرداری کی تمام منصوبہ بندی پر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر الیکشن کمشن کو کم وقت دیا ہے تاکہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کے لئے کم سے کم وقت میسر آئے اور اپنی مرضی کے امیدواروں کو کلیئر قرار دلوایا جا سکے۔ سو قیاس یہی ہے کہ وہی پرانے چہرے انتخابات لڑتے دکھائی دیں گے اور بیشتر ان میں سے اپنی دولت اور ”دھونس دھاندلی“ سے کامیاب بھی ہو جائیں گے۔ ضمنی انتخابات میں بھی اسلحہ کی نمائش کا کوئی سدباب نہ کیا گیا حالانکہ یہی چیف الیکشن کمشن تھے۔ اب بھی آثار یہی بتاتے ہیں کہ انتخابات میں ”جنگ اور محبت“ کی طرح سب کچھ جائز سمجھا جائے گا بلکہ شیخ رشید کے بقول الیکشن ”خونی“ ہوں گے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔