پہلے یہ خبریں آئی تھیں کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں اس میں کیا رکاوٹ پڑی کہ معاملات آگے نہ بڑھ سکے۔ اور جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے سلسلہ جنبانی شروع ہوگیا لیکن اس میں بھی کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ لگتا ہے یہ بیل بھی منڈے چڑھنے والی نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی کبھی ایک جماعت کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی دوسری جماعت کی طرف اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی معاملات پھر بھی طے نہیں ہوپارہے۔ یہ درست ہے کہ اپنی مضبوط تنظیم ، محدود لیکن ٹھوس حلقہ اثر اور مضبوط سٹریٹ پاور کی بنا پر جماعت اسلامی کو ملک کی دینی سیاسی جماعتوں میں ایک اہم مقام حاصل ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی انتخابی سیاست میں آج تک کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ 1970سے 2008تک ہونیوالے انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جماعت اسلامی انفرادی طور پر کسی بھی انتخاب میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے البتہ جب کبھی کسی انتخابی اتحاد کا حصہ بن کر یا دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اس نے انتخابات میں حصہ لیا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور ملتی رہی ہے۔ 1970کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے اپنے بانی امیر اور عالم اسلام کی نامور شخصیت سید ابو الامودودی مرحوم کی سرکردگی میں پورے جوش و جذبے سے حصہ لیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پیپلز پارٹی اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے سامنے اسکا چراغ نہ جل سکا اور اسے متحدہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ دو کراچی، ایک ڈیرہ غازی خان اور ایک دیر سے۔ 1977کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کیخلاف قائم نو جماعتی اتحاد ”پاکستان قومی اتحاد“ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا۔ لیکن ان انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کی بنا پر مسترد کردیا گیا۔ 1985میں ضیاءالحق مرحوم کے دور میں منعقد ہونیوالے غیر جماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کارکردگی کچھ بہتر رہی ۔ 1988اور 1990میں جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے جسکی عملی قیادت میاں نواز شریف کر رہے تھے انتخابات میں حصہ لیا اور قابل ذکر تعداد میں اسکے ارکان قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1993کے عام انتخابات سے قبل جماعت اسلامی ، اسلامی جمہوری اتحاد سے الگ ہوچکی تھی اور اس نے اپنے امیر قاضی حسین احمد مرحوم کی زیر قیادت پاکستان اسلامک فرنٹ کے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لیا لیکن اسے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑااور ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ 1997میں جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ اکتوبر 2002 کے انتخابات سے قبل قاضی حسین احمد مرحوم کی کوششوں سے دینی جماعتوں کے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ متحدہ مجلس عمل نے ان انتخابات میں توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علما ءاسلام کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی سے بھی بڑھ کر پذیرائی ملی اور متحدہ مجلس عمل خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ۔ متحدہ مجلس عمل کی یہ حکومت عوامی توقعات اور امنگوں پر پورا نہ اتر سکی۔ 2008کے انتخابات سے قبل متحدہ مجلس عمل انتشار کا شکار ہوگئی اور جماعت اسلامی نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ اب مئی 2013کے انتخابات سر پر ہیں جماعت اسلامی کے چھوٹے بڑے رہنماﺅں نے پورے ملک میں ان انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کروارکھے ہے۔ اسکے امیدواروں کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کے کراچی ، حیدر آباد اور سندھ میں جماعت اسلامی نے مسلم لیگ فنکشنل ، مسلم لیگ ن اور قوم پرست جماعتوں کیساتھ اتحاد کر رکھا ہے لیکن پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات لٹکے ہوئے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے کبھی جماعت کے مذاکرات مسلم لیگ ن کیساتھ ہوتے ہیں پھر یہ سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور تحریک انصاف کیساتھ سلسلہ جنبانی شروع ہوجاتا ہے۔ پھر وہاں بھی معاملات طے نہیں پاسکتے تو نظریں دوبارہ مسلم لیگ ن کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔ وہاں بھی معاملات آگے بڑھ نہیں پاتے بیچ میں جماعت دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ دینی محاذ اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کی طرف بھی للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو متحدہ مجلس عمل کا احیاءکر کے جماعت اسلامی کیساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تیار تھے اب جماعت اسلامی کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بجا طور پر اپنے موقف میں حق بجانب ہیں کے انکا ووٹ بنک بہرکیف اتنا ہے کے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے بعض حلقوں میں قابل ذکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے اسکے قائدین کو اسکا اندازہ ہونا چاہئے۔ کہاں کراچی، حیدر آباد میں جماعت کا طوطی بولتا تھا اپر دیر ، لوئر دیر ، سوات اور مردان میں جماعت کے امیدوار اکیلئے ہی میدان مارلیا کرتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان کوہستان اور فاٹا میں بھی جماعت کے امیدواروں کو ہرانا آسان نہیں تھا ۔ جماعت اسلامی جسکی ایک باوقار اور ٹھوس حیثیت تھی جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت نے اسکو بازیچہ اطفال بنا دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے اکابرین کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کے جماعت کا فطری اتحاد دینی جماعتوں کیساتھ بنتا ہے ۔ متحدہ مجلس عمل یا اسی طرح کے کسی نئے اتحاد کا قیام جماعت اسلامی کیلئے سب سے زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا تھا لیکن متحدہ مجلس عمل کا احیا ءنہ ہوسکا اور نہ ہی دینی جماعتوں کے کسی اور اتحاد کو وجود میں لایا جاسکا۔ یہ دوعملی نہیں کہ جماعت اسلامی اپنے سابقہ امیر قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی قائم کردہ ”ملی یکجہتی کونسل“ کے پلیٹ فارم سے دینی جماعتوں کے باہم اتحاد و اتفاق کا پرچار کرتی ہے لیکن عملی طور پر متحدہ مجلس عمل کے احیاءمیں روڑے اٹکاتی رہی ہے۔ معمولی سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی سمجھتا ہے کے جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتیں اگر مل کر آگے بڑھتی ہیں تو ایک بڑی قوت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ، مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان ، مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام، پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلحدیث اور علامہ ساجد نقوی کی تحریک اسلامی کو ساتھ ملا کر متحدہ مجلس عمل قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ متحدہ مجلس عمل نے 2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 63نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ آج جماعت اسلامی کبھی مسلم لیگ ن کی طرف دیکھتی ہے کبھی تحریک انصاف کی طرف اسلئے کہ اسے لاہور میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی چند نشستیں بخشیش میں مل جائیں ۔ جناب لیاقت بلوچ ، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ، حافظ سلمان بٹ ، میاں مقصود احمد ، جناب امیر العظیم اور جناب نذیر جنجوعہ بڑے قابل احترام نام ہیں لیکن یہ محترم قائدین اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر اپنے دلوں سے پوچھیں کہ انکی اس طرح کی روز روز کی قلابازیوں سے جماعت اسلامی کی شہرت ، حیثیت مقام اور مرتبے کو کتنی زک پہنچ رہی ہے جماعت اسلامی کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔