اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت کے دوران پرویز مشرف اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وفاق سے رائے طلب کر لی ہے۔ آئی جی اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت کی ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا انہیں ملک سے نہ جانے دیا جائے۔ سیکرٹری داخلہ سے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ہونے یا نہ ہونے سے متعلق رپورٹ آج طلب کر لی گئی ہے۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین توڑنا ایسا جرم ہے جس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی حکومت نے اب تک ایکشن کیوں نہیں لیا ملک و قوم کے حوالے سے یہ چھوٹا مقدمہ نہیں آئین توڑنے والوں کا ٹرائل ہونا چاہئے۔ مشرف کا کیس کوئی عام کیس نہیں اس کیس کی بنیاد پر ملکی آئین کی بنیاد کھڑی ہے۔ معاملے پر سینٹ کی قرارداد آ گئی کیا وہ کافی نہیں تھی، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مشرف اور ان کے شریک کاروں کے خلاف مناسب کارروائی کرے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ ملک کی بنیاد اور آئین توڑنے کی بات ہے جو بھی آئین کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف ایکشن ہونا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف متفرق درخواستوں کی سماعت کی تو لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر توفیق آصف کے وکیل حامد خان، مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر، شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ، حکیم کنڈی کے وکیل اکرام چودھری پیش ہوئے جبکہ ایک درخواست گذار امجد ملک عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ مولوی اقبال حیدر کے وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ 31 جولائی 2009ءعدالت عظمیٰ اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دے چکی ہے۔ انہوں نے آئین توڑ کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا وہ اپنے حلف کی پاسداری میں ناکام رہے۔ عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل دائر کی گئی؟ اس پر اے کے ڈوگر نے جواب دیا کہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں ہوئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس معاملے پر وفاق کی طرف سے کیا اقدامات کئے گئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وفاق نے سینٹ کی منظور کردہ قرارداد کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کئے۔ 18ویں ترمیم میں غداری کے مرتکب افراد کے لئے ترمیم شدہ شقوں کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر نوٹس ارسال کرنے سے متعلق کہا کہ عدالت کا مقصد انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی وفاق کی ذمہ داری ہے، عدالت تو صرف منصف کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ پرویز مشرف نے تسلسل سے مجرمانہ اقدامات کئے مگر وہ ملزم ہیں نہ مجرم۔ انہوں نے سپریم کرائم کیا ہے، پرویز مشرف نے ایک وار میں ملک اور آئین کی جڑیں کاٹ دیں، ”کٹ آف دی نیک“ اے کے ڈوگر نے ایڈووکیٹ حامد خان کی گردن پر ہاتھ مار کر اشارتاً سمجھایا کہ کس طرح کٹ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جھس طرح سابق چیئرمین توقیر صادق ملک سے فرار ہیں پرویز اشرف کو وی آئی پی پروٹوکول دے کر فرار کرا دیا جائے گا۔ عدالت ای سی ایل کی بات کرتی ہے اگر وہ ”واہگہ بارڈر“ کراس کر کے فرار ہو گئے تو؟ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر کی ایمرجنسی لگائی، پی سی او کے تحت اقدامات کرنے پر ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے موت کی سزا ہونی چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی کو ایسا اقدام اٹھانے کی جرا¿ت نہ ہو۔ حامد خان نے عدالت کو 23 جنوری 2013ءکو سینٹ میں پرویز مشرف کے خلاف پاس کی جانے والی قرارداد کی کاپی پیش کی جس میں پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پرویز مشرف نے 18 اگست 2008ءکو استعفیٰ دیا تاہم ان کے استعفے کے 4 ماہ بعد تک ان کے خلاف وفاق نے کارروائی کی اور نہ ہی 24 مارچ 2013ءکو ان کی پاکستان واپسی کے بعد سے کوئی کارروائی کے لئے اقدامات کئے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ دیتی ہے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ حامد خان نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہ کرنا حکومت کی نااہلی ہے۔ انہوں نے عدالت سے پرویز مشرف کی گرفتاری کی استدعا کی اور کہا کہ سندھ ہائیکورٹ مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے احکامات دے چکی ہے۔ درخواست گذار چیئرمین وکلا ایسوسی ایشن کے امجد ملک ایڈووکیٹ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ درخواست گذار شیخ احسن الدین ایڈووکیٹ اور سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار نے اپنے دلائل میں کہا کہ غداری کا مقدمہ سے متعلق 1973ءسے معاملات چل رہے ہیں۔ انہوں نے 1972ءکے عاصمہ جیلانی کیس کا ریفرنس دیا اور کہا کہ اس حوالے سے تاریخ میں بہت کچھ لکھا ہے کیس میں تاریخ بیان کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے 1993ءمیں میاں نوازشریف کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ انہوں نے 1973ءمیں جسٹس شفیق الرحمن کی جانب سے حمود الرحمن کیس کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ مشرف نے 3 نومبر 2007ءآئین کی خلاف ورزی کی ایمرجنسی لگائی، پی سی او جاری کیا، کیس میں فاضل کورٹ کیا ہدایت دے سکتی ہے اس کی کیا نوعیت ہے بتانا ضروری ہے۔ انہوں نے الجہاد ٹرسٹ کیس اور ”بلیک لا ڈکشنری“ میں ”ہائی ٹریزن“ کی تعریف سے متعلق دلائل دئیے اس ملک میں سیاسی لیڈروں کا احتساب ہوتا رہا۔ ذوالفقار بھٹو اور بےنظیر بھٹو شہید ہوئے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کو جلاوطنی پر مجبور کیا گیا، 3 نومبر کے غیر قانونی اقدام سے پرویز مشرف اور اس کے حواریوں نے اپنے مفادات کے لئے احکامات دئیے۔ درخواست گذار اکرام چودھری نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 29 کے تحت ہائی کورٹ اس درخواست کی سماعت کر سکتا ہے ملک میں 40 سال تک آمریت رہی اور آمریت کے خلاف بار ایسوسی ایشن کی قراردادیں پیش ہوئیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف کی جانب سے بھی کسی نے وکالت نامہ پیش کیا؟ اکرام چودھری نے عدالت کو بتایا کہ ان کی جانب سے کسی نے کوئی وکالت نامہ پیش نہیں کیا ہے۔ ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر نے کہا کہ پرویز مشرف کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمود احمد، میجر جنرلز عزیر احمد، غلام احمد، شاہد عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل (کراچی) عثمان شریک کار ملزم ہیں۔ ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔ بعدازاں عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ درخواست گذاروں نے دلائل میں مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ملک سے غداری کرنے پر سزا کی سفارش کی ہے۔ اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشرف اور اس کے حواریوں کے خلاف کارروائی کرے۔ اس معاملے پر سینٹ کی قرارداد پاس ہو چکی ہے۔ عدالت نے فریق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے مشرف کا نام ای سی ایل میں ہونے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ہے۔ مزید سماعت آج منگل تک ملتوی کر دی ہے۔
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) سابق صدر، آرمی چیف پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم سندھ ہائی کورٹ نے دیا تھا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے بھی پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن ڈائریکٹوریٹ نے وزارت داخلہ سے احکامات پر سرکلر جاری کیا۔ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے سرکلر تمام ایئرپورٹس، بندرگاہوں اور چیک پوسٹوں کو ارسال کر دیا گیا۔ سرکلر جاری ہونے کے بعد جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان سے باہر سفر نہیں کر سکیں گے۔ سرکلر کے مطابق پرویز مشرف کا پاسپورٹ سفارتی ہے۔ دریں اثناءپرویز مشرف نے سکیورٹی خدشات کے باعث سپریم کورٹ میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ، ان کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ طالبان کی تازہ دھمکیوں کے بعد وکلا کے مشورے پر کیا گیا، ذرائع کے مطابق سابق صدر کے قریبی ساتھیوں اور ان کے وکلا کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر مشرف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوتے ہیں تو اس موقع پر ان کے مخالف وکلا احتجاج بھی کر سکتے ہیں جس سے صورتحال خراب ہو سکتی ہے اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے اس لئے وکلا نے سابق صدر جو آرمی چیف بھی رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی سکیورٹی متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے مشورہ دیا ہے کہ وہ ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے سے گریز کریں۔ مشرف کے وکلا کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ان کیخلاف پیر کو درخواستوں کی سماعت کے دوران ویسے بھی انہیں ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم نہیں دیا اور صرف انہیں نوٹس جاری کیا گیا ہے جس پر ان کے وکلا پیش ہوکر جواب دے سکتے ہیں۔دریں اثناءنجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وفاقی و زیر اطلاعات عارف نظامی نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے کیس میں فریق بننے کے لئے کہا گیا تو ضرور بنیں گے۔ عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی تو عمل کیا جائے گا۔ نگران حکومت کا مینڈیٹ شفاف الیکشن کرانا ہے، نگران حکومت سے زیادہ توقعات رکھنا مناسب نہیں۔
مشرف / فیصلہ