تعلق، انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے اور جذبہ تحریک بھی، تعلق کے اپنے درجے، اپنی شدت، اپنی جدت، اپنے اُتار چڑھائو، اپنی کیفیات و احساسات ہیں، اس کا معاملہ بھی پہلی نظر میں، پہلی ملاقات میں پیار ہونے والی بات ہے ورنہ برس ہا برس گزر جاتے ہیں، لوگ ایک چھت کے نیچے رہتے، روزانہ ملتے ہیں، مسکراتے ہوئے ملتے ہیں اور رخصت ہوتے ہیں مگر ایسا تعلق نہ بن پاتا جسے وقت کے مد و جزر اور بحرانی ادوار متاثر کرنے کی قوت نہیں رکھتے۔ پاکستان سے پیار کرنے والے گزشتہ پانچ دہائیوں سے جناب مجید نظامی کے ساتھ چل رہے ہیں، ان کے خیالات سے رہنمائی اور عمل سے اپنے ارادوں کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ جس رفتار سے نظریہ پاکستان، فکرِ اقبال، اور جناح کے افکار سے آگاہی کی نوجوان نسل میں منتقلی کا عمل جاری ہے یہ محترم مجید نظامی جیسے انسان کے علاوہ کسی سے بھی ممکن نہ ہو پاتا۔ صحافت کا یہ پورا عہد ان سے منسوب ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک کے مستقبل کیلئے نظریاتی فوج کی آبیاری کا کریڈٹ بھی نظامی صاحب کو جاتا ہے جن کے زیر سایہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے گزشتہ سالوں میں انتہائی ذمہ داری، مخلصانہ اور انتھک محنت نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے افکار کو بہتر انداز میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، نظریات کو متحرک رکھنے اور تحریک کو آگے بڑھنے کا عمل جاری ہے۔ مجید نظامی صاحب سے میرے والد مرحوم پروفیسر محمد رفیق عالم کا قلبی اور ذہنی تعلق تھا، والد مرحوم کو اکثر یہ کہتے سُنا کہ جناب مجید نظامی کی مسلم لیگ کا ممبر کہلانے پر فخر کرتے، حق پرست تھے، عمر بھق حق کا ساتھ دیا، صحیح معنوں میں نظریہ پاکستان، نوائے وقت اور مجید نظامی سے عشق تھا، محترم اجمل نیازی نے لکھا ہے کہ رفیق عالم رفاقتوں کے عالمی خیالات پر پورا اُترتے تھے اور محبت کے راستے کے مسافر تھے۔
انسان کو اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے، موت کا سفر زندگی کی صورت میں طے کرتے کرتے بالآخر خالق حقیقی سے جا مِلا دے گا، حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر محمد رفیق عالم ہم میں نہیں، انہیں ہم سے بچھڑے تین برس ہو گئے، جو تین صدیوں پر بھاری ہیں، وہ نہیں، مگر آج بھی اپنی علمی تحقیق سے زندہ ہیں، ان کی تصانیف کو نہ صرف قومی سطح پر پذیرائی ملی بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی ان کی علمی کاوشوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے، قائداعظم کے حالات زندگی پر ایک عمیق مستند تحقیق مکمل کر کے ان کے حصہ میں تاریخ کی اہم دستاویز مرتب کرنے کا کریڈٹ بھی شامل ہُوا ہے، جسے رواں برس شائع کیا جا رہا ہے جو نہ صرف جناح کے عالمی امیج کو اُبھارنے کیلئے اہم کردار ادا کرے گی بلکہ تاریخ کے طلبہ کیلئے نادر دستاویز ثابت ہو گی۔
امید باقی ہو تو حوصلے آخری سانس تک جوان اور توانا رہتے ہیں اور امید اللہ کی رحمت ہے۔ انسانوں کو اعمال کے ذریعے بھی انسانوں کیلئے امید کے دِیّے روشن رکھے جاتے ہیں، پروفیسر محمد رفیق عالم اپنے حصے کا کام مکمل کر گئے اور اسے نئی نسل تک منتقلی کی ذمہ داری ہم پر عائد کر گئے۔چودھری سردار محمد مرحوم (سابق آئی جی) نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ ان کی والدہ کسی اپنے کے جانے پر اکثر گنگنایا کرتیں :
پِیپل دیَا پتیا! کیوں کھڑکھڑ لائی او
پچھلیاں ٹُر جاناں، رُت نَویّاں دی آئی او
یاد ِ رفتگان …… پپل دا پتا
Apr 09, 2014