لاہور (جواد آر اعوان/ دی نیشن رپورٹ) مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امن کے حمایتی طالبان کی جانب سے امن مخالف طالبان کیخلاف آپریشن میں پاک فوج کی رہنمائی کرنے کا مضبوط امکان ہے۔ قبائلی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے امن کے حمایتی اور امن کے مخالف عناصر کے مابین بڑھتے ہوئے اختلافات اور تصادم کے باعث اس بات کا قوی امکان ہے کہ حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امن کے حمایتی طالبان امن کے مخالف عناصر کیخلاف کارروائی میں سکیورٹی سروسز کی حمایت اور تعاون کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار خیبر پی کے اور قبائلی علاقے میں انتہائی اہم خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر دی نیشن سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی کے علاقے شکتوئی میں 7 اپریل کو امن کے حمایتی اور امن کے مخالف طالبان دھڑوں میں خونی تصادم کے دوران مذاکرات کے مخالف سینئر طالبان کمانڈر کی ساتھیوں سمیت ہلاکتوں کی وجہ سے یہ امکان مزید تقویت پکڑتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے بعض ارکان کہتے ہیں کہ سکیورٹی سروسز کی جانب سے کئے گئے آپریشن میں طالبان گروپوں کی حمایت حاصل تھی تاہم اس حوالے سے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع نے دی نیشن کے نمائندے کو بتایا کہ وہ امن کے حمایتی اور مخالف طالبان گروپوں میں تصادم کو انتہائی قریب سے مانیٹر کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے گروپوں کے مابین لڑائی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور سیزفائر کے اعلان کے بعد صرف حکومتی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے کئی گروپوں نے بالواسطہ طور پر ان سے رابطہ کر کے مشکلات پیدا کرنے والے عناصر کیخلاف کارروائی میں خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے تاہم سکیورٹی کی جانب سے امن مذاکراتی عمل کے جاری رہنے تک ان سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیبر پی کے اور قبائلی علاقوں میں خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکار نے مزید بتایا کہ ملکی اہم ترین خفیہ ایجنسی نے پہلے ہی اچھے اور برے طالبان کے مابین فرق کر لیا ہے اور مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں امن مخالف گروپوں کیخلاف کارروائی کرنے میں آسانی ہو گی اور اس کیلئے فورسز کو امن کے حمایتی طالبان کی رہنمائی بھی حاصل ہو گی۔