سعودی عرب کی طرف سے یمن پر یلغار کے بعد پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا اک نئے امتحان سے دو چار ہو گئی ہے۔ سب سے زیادہ دبائو کا شکار پاکستان ہے جس کے سعودی عرب کیساتھ تاریخی اور تہذیبی تعلقات ہی نہیں بلکہ دینی رشتہ ہونے کی وجہ سے جذباتی وابستگی بھی ہے پاکستانی عوام اسلام کے شیدائی اور مکہ و مدینہ انکی زندگیوں کا مرکز و محور ہیں۔ اس لحاظ سے اہل پاکستان سعودی عرب پر پڑنے والی ہر افتاد کو اپنی مصیبت تصور کرتے ہیں اور اپنی حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں بلاتاخیر سعودی عرب کی اسی طرح کھل کر حمایت کرے جس طرح سعودی عرب ہر آڑے وقت میں پاکستان کی کرتا ہے۔
سعودی عرب‘ یمن تنازعہ کو ہوا دینے والے اسے فرقہ وارانہ رنگ دیکر ثابت کر رہے ہیں کہ مسلمان دشمن قوتیں سوچی سمجھی سازش کے تحت امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس وقت اسلام دشمن قوتوں کا ہدف صرف اسلام ہے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ پتا کھیلا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی بھی تحریک یا بغاوت کب اور کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ حکمران جب بھی انصاف فراہم نہ کریں‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہو‘ معاشرے میں تضادات ہوں‘ امیر غریب کا فرق بڑھ رہا ہو اور عوام کا استحصال کیا جا رہا ہو تو پھر نظر انداز طبقات اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یمن میں ایک خاص فرقے کا استحصال ہو رہا تھا۔ ایک عرصے سے وہ حکومتی عتاب کا شکار تھے۔ یمن کی حکمرانی سوا داعظم کے حکمران منصور ہادی کے پاس تھی۔ جسکے باعث یمن میں ایک خاص طبقے کے مسلمان پریشان تھے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انہوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھائی ۔ 1990ء سے پہلے یمن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک شمالی اور دوسرا جنوبی یمن۔ 1979ء میں جنوبی یمن اور شمالی یمن میں خونریز جنگ چھڑی جو کویت کی ثالثی میں اختتام پذیر ہوئی جبکہ 1990ء میں متحدہ یمن ہونے کے باوجود اس ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ 21 ستمبر 2014ء کو یمن میں انقلاب کو کچلنے کیلئے حکومت نے بھرپور کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور بدامنی اور قتل و غارت گری کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جس سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ سعودی عرب پہلے یمنی عوام کے مسترد شدہ صدر علی عبداللہ صالح کی حمایت کرتا رہا بعد ازاں علی عبداللہ صالح بھی حوثیوں کیساتھ شریک ہو گیا تو سعودی عرب نے منصور ہادی کی پشت پناہی شروع کر دی۔
بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ ہے کہ جب بھی سعودی عرب پر کوئی حملہ ہو گا تو پاک فوج اسکی مدد کریگی۔ اب سعودی عرب نے اسی معاہدہ کے تحت پاکستان کو آواز دی ہے۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ وہ معاہدہ یہ ہے کہ اگر سعودی عرب پر کوئی حملہ کریگا تو پاک فوج دفاع کیلئے خدمات فراہم کریگی۔ معاہدے میں یہ طے نہیں ہوا تھا کہ سعودی عرب کسی ملک پر چڑھائی کریگا تو پاکستان اسکی مدد کریگا۔ ہم نے پہلے امریکی جنگ میں حصہ لے کر اپنا بہت زیادہ نقصان کر لیا ہے پاکستان مزید متحمل نہیں ہو سکتا کہ ایک اور دریا میں کود جائے امریکہ کی جنگ میں حصہ لے کر ہم نے 60 ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کی ہیں۔ اس وقت دہشتگردوں کے مکمل خاتمے کا عزم کر چکے ہیں۔ ہماری مسلح افواج آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہیں اور ہم اپنے ملک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اس مشن کو ادھورا نہیں چھوڑ سکتے۔ شرق اوسط کے تنازعہ سے گمان گزرتا ہے کہ ہمارے ملک میں جاری آپریشن ضرب عضب کو ناکام کرنے کیلئے یہ پتا کھیلا جا رہا ہے۔
یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ سعودی عرب کے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں پر بہت زیادہ احسانات ہیں لیکن ذاتی احسانات اپنی جگہ ملکی مفاد‘ ذاتیات سے اہم ہوتے ہیں اور ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام نہیں چاہتے کہ پاکستان یمن فوج بھیجے۔ اس حوالے سے پاکستان کو کسی ایک فریق کی حمایت کر کے دوسرے کو مخالف نہیں بنا لینا چاہئیے بلکہ پاکستان اس میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ فریقین میں تصفیہ کروائے اور یمن میں قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کردار سے پاکستان کو فریقین کی نگاہوں میں معتبر مقام حاصل ہو جائیگا۔ اس سے جہاں مسلمان دھڑے بندی کا شکار ہونے سے بچ جائینگے وہاں اسلام کیخلاف ہونیوالی سازش بھی ناکام ہو جائیگی۔ پاکستان اپنی بصیرت سے اس امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اگر بصیرت کا دامن چھوڑ دیا گیا تو پھر صورتحال یہ ہونی ہے کہ آپریشن ضرب عضب ادھورا رہ جائیگا اور دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل جائیگا اور ہماری تمام قربانیاں رائیگاں چلی جائینگے۔ ہمارے 60 ہزار شہداء کی ارواح پھر ہم سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گی کہ ہم نے محض شخصی اقتدار کیلئے اپنے مشن کو ادھورا چھوڑ دیا؟
فوج کے حوالے سے بھی معلومات ہیں کہ پاک فوج نے یمن نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر فوج کا یہ فیصلہ ہے تو انتہائی احسن اقدام ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔ ہم نے فوج کو پاکستان کی فوج بنانا ہے کرائے کی فوج نہیں کہ کوئی بھی ہمارے حکمرانوں پر احسان کرے اور ہماری فوج کو اپنا غلام بنا لے۔