یمن کی جنگ ۔ مسلمانان عالم کیخلاف گہری سازش؟

Apr 09, 2015

شمالی اور جنوبی یمن جب 1990ء میں یکجا ہو کر ایک ملک بنے تو توقعات یہ تھیں کہ اس خطے میں ایک مضبوط عرب ریاست وجود میں آئے گی مگر باوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ ان وجوہات میں سب بڑی وجہ ملک کی آبادی کا قبیلوں میں تقسیم ہونا اور وسائل کا چند ہاتھوں تک محدود رہنا تھا۔ 2012ء میں جب تیونس میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جسے عرب سپرنگ کا نام دیا گیا۔ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے یمن تک آنے میں اتنا مختصر وقت لگے گا۔ اس سے ایک سال قبل یعنی 2011ء میں یمن کے جنوبی حصے میں موجود جنگجوؤں کا تعلق القاعدہ سے جڑ گیا جبکہ شمال میں علیحدگی پسندوں جن میں زیدی شیعہ شامل تھے کو بھی انہیں قوتوں کی حمایت حاصل ہو گئی اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو یمن پچھلے 50 سالوں سے ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار رہا ہے۔
حالیہ بحران کا آغاز 2011-12ء میں برپا ہونے والے انقلاب سے ہوا جب مسلح گروپوں نے صدر علی عبداللہ صالح کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جو بیس سال سے زیادہ عرصہ تک برسراقتدار رہے۔ دو سال تک مسلح باغیوں کے زیر اثر رہنے کے بعد 2014ء میں حوثی جنگجوؤں نے صنعا میں داخل ہو کر اس وقت کے صدر منصور ہادی کو اتحادی حکومت بنانے پر مجبور کیا اور اسی دباؤ کے باعث جنوری 2015ء میں ہادی اور اسکے وزراء کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا اور صرف ایک ماہ بعد فروری میں پارلیمنٹ تحلیل کرکے اقتدار ایک عبوری انقلابی کمیٹی کے سپرد کر دیا جس کے سربراہ محمد علی الحوثی تھے سابق صدر ہادی پہلے عدن فرار ہوئے اور بعد میں سعودی عرب پہنچ گئے۔
سعودی عرب کے زیر اثر عرب لیگ نے انہی دنوں ہوائی بمباری شروع کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد ملکوں کی مسلح افواج کو بھی اس علاقے میں جمع کرنا شروع کر دیا جو سعودی یمن بارڈر کے قریب ہیں لہٰذا 6 فروری 2015ء کو حوثی ترجمان نے ایوان نمائندگان کو تحلیل کرنے کا باقاعدہ اعلان کرکے حوثی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 25 مارچ کو سعودی عرب اور اس کے 18 اتحادی ملکوں نے جن میں بحرین‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات‘ مصر اردن‘ مراکش اور سوڈان نے یمن کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کر دیا اور یمن سے حوثی حملہ آوروں کو نکال باہر کرنے کو اپنا ہدف قرار دیا۔ یمن پراس فوج کشی اور فضائی بمباری سے اب تک سینکڑوں سویلین موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ حوثی حکومت کے قیام پر شدید منفی ردعمل سامنے آیا  اور عرب لیگ‘ گلف تعاون کونسل‘ اقوام متحدہ اور امریکہ نے نہ صرف حوثی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ سعودی عرب اور اسکے اتحادیوں کی طرف سے فوجی کارروائی کو بھی جائز قرار دیا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے تو مفرور صدر ہادی کی بحالی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ سعودی عرب جہاں سابق صدر ہادی کا حامی ہے وہیں اسکی حوثیوں سے نفرت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ریاض یہ سمجھتا ہے کہ حوثی جنگجو یمن میں ایران کی پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ حال ہی میں ایران کی طرف سے جدید اسلحہ سے بھرا ایک بحری جہاز بھی پکڑا گیاتھا اور یہ دعویٰ کیا  گیاکہ اسلحہ حوثی جنگجوؤں کے لئے بھیجا گیا تھا ایسے لگتا ہے کہ اس خطے کے دو طاقتور ممالک ہیں اور اس کا امکان ہے کہ ایک بڑی شیعہ سنی جنگ چھڑ جائے خاص طور پر جب القاعدہ اور دولت اسلامیہ جیسی تنظیمیں بھی اسی علاقے میں برسرپیکار ہوں درج بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان ایک انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک طرف سعودی عرب ہے جس سے دوستی اور تعلقات دیرینہ اور آزمودہ ہیں دوسری طرف ایران ہے جس کے ساتھ ایک طویل مشترکہ سرحد ہے جو کئی سو کلو میٹر پر محیط ہے۔ سعودی عرب کی قیادت نے پاکستان سے فوجی مدد مانگی ہے اور ہمارے وزیراعظم نواز شریف نے بلاکسی مشاورت کے بڑے بھاری بھر قسم کے اعلانات کر دیئے ہیں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں خود بھی احساس نہیں کہ جذبہ وفاداری میں وہ کیا کیا کچھ کہہ گئے اور اس کے کیا گھمبیر اثرات ہو سکتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ان کے پاؤں پر بریک رکھنے کے لئے انہیں پاکستانی فوجی قیادت نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ملک کی اندرونی صورت حال کا ازسرنو جائزہ لیں۔ ایک طرف فوج دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب جیسا بھرپور آپریشن کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف کراچی آپریشن بھی پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے اور اس کے جلد ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ بھارت جس نے کئی مہینوں سے انٹرنیشنل بارڈر اور لائن آف کنٹرول پر اپنی مذموم حرکات جاری رکھے ہوئی تھی اور متعدد علاقوں میں بلااشتعال بمباری کی ایسی صورت کے پیش نظر مشرقی سرحد سے فوجوں کی تعداد کم کرنا بھی ممکن نہیں۔
انہی حقائق کے پیش نظر سعودی عرب کے مطالبے پر فوج بھیجنے جیسے اہم معاملے کو عسکری قیادت کی طرف سے پارلیمنٹ میں لے جانے کا مشورہ دیا گیا۔ وزیراعظم کو یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی گئی کہ حرمین شریفین‘ سعودی حکومت اور ریاست کو علیحدہ علیحدہ مدنظر رکھنا ہو گا۔ کوئی بھی مسلمان جو کہیں بھی رہتا ہو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کی خاطر جان دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ سعودی ریاست پر اگر حملہ ہو تو بھی ہم پر واجب ہے کہ اسکا دفاع کیا جائے تاہم وہاں کی حکومت کے فیصلوں کے حوالے سے سوچ بچار ضروری ہے۔
یمن کا معاملہ ایک فلیش پوائنٹ بنتا جا رہا ہے اور اگر ہوشمندی سے فیصلے نہ کئے گئے تو ایک بڑی جنگ سے بچنا مشکل ہو جائے گا جس کا مسلم امہ متحمل نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے موثر مسلمان قیادت کو چاہئے کہ وہ جنگ کو فوری بند کرانے اور پرامن بات چیت کے ذریعے معاملے کا حل ڈھونڈنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کوششوں کا آغاز کرے۔
دوسری طرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کے مسئلے پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے اور اب تک جتنی تقاریر ہوئی ہیں ان میں ایک امر مشترک ہے کہ پاکستان کو فوج بھیجنے اور جنگ میں عملی حصہ بننے کی بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ منتخب نمائندوں کی اس رائے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہئے جو سعودی احسانات کا بدلہ چکانے کی غرض سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے جا رہے ہیں۔
مسلمان ممالک کے باہمی خلفشار کی وجہ سے مسلم امہ کمزور ہوتی جا رہی ہے اور یوں امریکہ‘ یورپ اور صہیونی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کر لیں اپنا قبلہ درست کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ بہزاد لکھنؤی نے ایسے صورت حال کے پیش نظر نصف صدی پہلے کہا تھا   ؎
اس دور میں اے دوست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہا ہوں
صیاد نے پھونکا تھا عنا دل کا نشیمن
صیاد کا جلتا ہوا گھر دیکھ رہا ہوں

مزیدخبریں