شہری بابو گھر سے نکلتا ہے‘ صاف ستھری کشادہ سڑکیں اور پل دیکھتا ہے۔ ان پر آرام دہ سفر کے مزے لوٹتا ہے۔ بہترین انفراسٹرکچر کی حامل شاہانہ عمارتیں‘ پلازے اور شاپنگ مالز سے خریداری کرتا ہے‘ جہاں ضروریات زندگی کی ہر شے ملتی ہے اور وہ انہیں دوگنی قیمت پر خرید کر بھی خوش ہوتا ہے‘ فخر محسوس کرتا ہے۔ اسے پینے کا صاف پانی بھی میسر ہے‘ صحت کی سہولیات تک رسائی بھی جلد اور آسانی سے ہو جاتی ہے۔ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بہتات سے بھرپور فائدہ حاصل کرتا ہے۔ شہری بابو میٹرو اور اورنج ٹرین سے بھی سفر کرتا ہے اور اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہے اور پھر سر اونچا کر کے کہتا ہے کہ دیکھو پاکستان ترقی کر رہا ہے۔ شہری بابو ٹی وی پر دیکھتا ہے کہ غیرت کے نام پر کسی پس ماندہ علاقہ میں ایک سترہ سالہ یا بارہ سالہ یا دس سالہ بچی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ وہ اخبار میں پڑھتا ہے کہ دور کسی بستی میں بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر ایک ماں نے بچوں سمیت خودکشی کر لی یا باپ نے بیٹی بیچ دی ہے۔ کہیں کسی دور افتادہ مقام سے عورتوں پر ذہنی و جسمانی اور جنسی تشدد کی خبر بھی آتی ہے۔ کہیں ایک دنیا ہے جہاں فیس کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے ایک ذہین طالب علم یونیورسٹی میں داخلے سے محرومی پر خود کشی کر لیتا ہے۔ شہری بابو یہ سب سنتا ہے اور پھر اپنی روزمرہ زندگی میں مگن ہو جاتا ہے۔ شہری بابو اس طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو پڑھا لکھا اور باشعور ہے۔ جو ملکی اور غیر ملکی سیاسی حالات پر گہری نظر اور مضبوط رائے رکھتا ہے۔ یہ باشعور طبقہ ووٹ کے استعمال کو بھی اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔ لیکن یہی باشعور شہری بابو جب میٹرو سے سفر کرنے لگتا تو اسے ایسے لگتا جیسے سارے پاکستان میں میٹرو بسیں چل رہی ہیں اور پوری قوم ان سفری سہولتوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ کیونکہ اسے اردگرد کے دیہاتوں میں رہنے والوں کی طرح روز کچی اور ٹوٹی سڑکوں پر سفر کی مصیبتیں نہیں اٹھانا پڑتیں۔ کئی علاقوں میں نہ تو سڑکیں ہیں اور نہ بسیں۔ بچے سکول تک جانے کے لئے روزانہ میلوں کا سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ چونکہ شہری بابوؤں کے بچے رکشوں، بسوں، کاروں اور وینز میں سکولوں تک جاتے ہیں اس لئے انہیں مضافاتی اور دیہاتی بچوں کے مسائل کا اندازہ ہے نہ احساس۔ دیہاتوں میں چار چار روز تک بجلی نہیں آتی اگر آتی ہے تو وولٹیج اتنے کم کہ اس پر فریج، ٹی وی، استری، اوون اور اے سی نہیں چلائے جاسکتے۔ دن میں چند گھنٹے بجلی آتی ہے اور باقی کی ساری بجلی شہروں میں رہنے والے استعمال کرتے ہیں۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دیہات کی نسبت بہت کم ہے۔ شہروں میں بڑے بڑے شاپنگ مالز میں چیزیں پیکنگ میں مہنگی اور ایک نمبر میسر آتی ہیں کیونکہ بڑی کمپنیز اپنی اصل منافع سے کہیں زیادہ وصول کرتی ہیں۔ جبکہ دیہات میں چیزیں ملاوٹ سے بھرپور اور جعلی ملتی ہیں۔ وہاں لوگ صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں کسی بھی علاقے میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نہیں لگائے جاتے جو شہروں میں ہر ہاؤسنگ سوسائٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ دیہاتوں میں سکولوں کی حالت قابل رحم ہے اور کالجز تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ بے شعور غریب اور ان پڑھ لوگوں کی زندگیاں اور ووٹ وڈیروں اور زمینداروں کی امانت ہوتے ہیں جس میں وہ انہیں خیانت نہیں کرنے دیتے۔ لیکن شہری بابو اپنی سہولیات اور آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے سمجھتا ہے کہ پورے ملک میں ترقی ہو رہی ہے۔ اور یہی حکمران اشرافیہ کی سازش ہے۔ وہ لوگ جو پڑھے لکھے ہیں جو ان کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی نسبت آسائشیں دے دو تاکہ جب یہ اپنے اردگرد دیکھیں تو سمجھیں ملک ترقی کر رہا ہے۔ شہری بابو کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ اس کے گھر میں خاندان میں یا جس ماحول میں وہ اٹھتا بیٹھتا ہے نہیں ہوتا تو وہ سمجھتا ہے پاکستان میں ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا۔ اسے کہا جائے کہ غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو کہتا ہے ایسا نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہی ہو گا تو اکا دکا واقعات ہوں گے۔ اسے بتایا جائے کہ عورت محفوظ نہیں عورت ذہنی و جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہے تو کہے گا ایک آدھ واقعات کی بنیاد پر ایسا کہا جاتا ہے۔ بے شمار بار دیہات کے مسائل بیان کرتے ہوئے جواباً یہ جملے میری سماعتوں سے گزرے کہ ایسا نہیں ہوتا یہ حقیقت نہیں۔ میں نے چار سال دیہاتوں میں رہتے ہوئے ان کے مسائل کو قریب سے دیکھا ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں پتھر کے دور میں چلی آئی ہوں جہاں سارا دن نہ بجلی آتی ہے نہ پانی اور گیس کا تو سوچیے بھی مت۔ لوگ چولہوں میں لکڑیاں جلاتے ہیں اور جو ذرا خوشحال ہیں ان کے ہاں گیس کے سلنڈر جلتے ہیں۔ اور وہ بھی صرف ایمرجنسی میں چائے وغیرہ پکانے کے لئے۔ عورتوں پر تشدد، جہیز جیسی لعنت کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہوتی بیٹیاں، بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان خوراک میں تفریق، جبری اور وٹے سٹے کی شادیاں غیرت کے نام پر قتل تیزاب پھینکنا بیٹی کو تعلیم اور جائیداد کے حق سے محروم رکھنا اور پھر ہر طرح کا تشدد سہنا یہ ان تمام بنیادی مسائل اور ضروریات سے ہٹ کر ہیں جو حکومت کی طرف سے فراہم نہیں کئے جا رہے۔ یہ پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد جو صرف شہری مسائل کے گرد کھومتی ہے، کا رخ موڑیں اور دیہاتوں کے مسائل کے حل کے لئے وہاں رہنے والوں کے اندر بیداری، شعور اور ان کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے کے لئے عملی طور پر میدان میں آئیں۔دیہات پڑھے لکھے باشعور لوگوں کے منتظر ہیں جو عہد تو کرتے ہیں ہم ڈاکٹر بن کر ان لوگوں کی خدمت کریں گے جنہیں صحت کی سہولتیں میسر نہیں یا پڑھ لکھ کر ان بچوں کو پڑھائیں گے جنہیں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں۔ لیکن تعلیم حاصل کرنے اور پروفیشنل ڈگری ہاتھ میںآتے ہی وہ یہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں یا پھر شہروں میں پیسہ کمانے کا لالچ انہیں دیہات کی طرف رخ نہیں کرنے دیتا۔ یہ پڑھے لکھے افراد اگر اپنے اردگرد ہونے والی ترقی کے فریب اور سراب سے باہر نکل آئیں تو اپنی قابلیت سے دیہات کی قسمت بدل سکتے ہیں۔