سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے 3۔ اپریل کو بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو سعودی عرب کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا۔ ایک بت پرست کی طرف دست دوستی بڑھایا ملوکیت کے تحفظ کیلئے دامن سوال پھیلا۔ گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کو گلے لگایا اور کشمیریوں پر مظالم ڈھانے والے مودی عرف ’’موذی‘‘ کو شیر شیریں پلایا نوجوان لڑکیوں نے چہرے سے نقاب ہٹایا اور نریندر مودی مسکرایا۔ ایک ایک لڑکی سے ہاتھ ملایا۔ فیس بک پر یہ مناظر دیکھ کر ہر پاکستانی سٹپٹایا۔ ابھی تو ہم ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے اس بیان پر نالاں تھے کہ ایران پاکستان کا برادر ملک ہے لیکن اسکے بھارت سے بھی دوستانہ مراسم ہیں۔ یہ دوستانہ نہیں تاجرانہ روابط ہیں اور ایران پر امریکہ کی طرف سے عائد اقتصادی پابندیوں کی بدولت ایران مجبور تھاکہ وہ روس اور بھارت سے اقتصادی روابط برقرار رکھے۔ اسی طرح آج سعودی عرب بھی حالت اضطراری اور عالم مجبوری میں بھارت سے روابط بڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ مسلمانوں کا مسلکی اور سیاسی نقاق و اختلاف ہے کہ توحید پرست ایک بت پرست ملک کے آستان پر جبہہ سائی کرنے لگے ہیں سعودی خواتین بے حجابانہ مسلمانوں کے قاتل سے ہاتھ ملا رہی ہیں کیا موجودہ سودی حکومت نے قدامت پرستی کی بجائے روشن فکری اور جدید مغربی تہذیب و ثقافت اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر یوں ہے تو پاکستان میں سعودی عرب کے ریالوں پر پلنے والے رجعت پرست مولویوں کا کیا بنے گا جو نقاب روئے زیبا کو جزوئے اسلام سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمان نے یمن کے تنازعہ بین ایران و سعودی عرب پر غیر جابندار رہنے کا متفقہ فیصلہ کیا اور سعودی عرب کے پر زور اصرارکے باوجود اپنی فوجوں کو آتش پیکار میں جھونکنے سے گریز کیا جس پر سعودی عرب اور عرب امارات ناراض و نالاں ہوئیں۔ پاکستان کی فوج کرائے کی فوج نہیں ہے۔ عرب بادشاہت کاتحفظ خلاف اسلام ہے۔ اسلام میں ملوکیت حرام ہے خلفائے راشدہ نے ملوکیت نہیں بلکہ اسلامی مشاورت سے خلافت محمدیہؐ کو رائج کیا۔
پاکستان کا یہ فرض ہے کہ اسلامی ممالک کے اتحاد کیلئے مسلکی بنیادوں سے بالاتر ہو کر وحدت امہّ کیلئے اپنا مثبت کردارادا کرتا رہے۔ ’’توحید خالص‘‘ کے علم برداروں سے دست بستہ درخواست ہے کہ مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت سے امداد و اعانت مانگنے کی بجائے خدا سے معاونت کے طلبگار ہوں اور اپنے شہریوں کے انسانی حقوق بحال کریں۔ بصورت دیگر کلیم کاشانی کا شعر حرز جاں بنائیں …؎
دلی آگاہ می باید وگرنہ
گدا یک لحظہ لی نام خدانیست
مذہبی منافرت و مناقشت عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکہ کے آئین میں رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے امتیازات کی سخت ممانعت ہے۔ لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ امریکہ میں 9/11 کے سانحہ کے بعد مسلم کش اور اسلام دشمن جذبات کا سیل تندوتیز بپھرا ہوا ہے۔ انگلستان‘ فرانس اور بلجیئم میں دہشت گردی کے واقعات نے معتدل و متوازن مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ امریکی صدارتی امیدوار ریپبلکن پارٹی کا رہنما ڈونلڈ ٹرمپ سرعام مسلمانوں کیخلاف ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ حال ہی میں امریکی ریاست ٹیکساس میں ’’نیشن آف اسلام مسجد‘‘ کے سامنے امریکی سفید فام باشندوں نے مسلمانوں کیخلاف مسلح مظاہرہ کیا۔ امریکہ میں اسلحہ سے لیس ہو کر مظاہرہ کرنا خون خرابے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ نہایت ہی خطرناک اور افسوسناک صورت حال ہے۔ اس مظاہرے کے ردعمل میں ساؤتھ ڈیلاس میں (BLACK PANTHER PARTY) نے مسلمانوں کے حق میں مظاہرہ کیا۔ امریکہ اور یورپ میں مذہبی انتہا پسند دنیا کے امن کو تہہ و بالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں چند مذہبی جماعتیں مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہیں۔ ان میں اکثریت قدامت پرست ہیں۔ پنجاب میں ’’تحفظ حقوق نسواں بل‘‘ کو غیر اسلامی قرار دے رہے ہیں جبکہ اس میں چند شقیں ایسی ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی اور تہذیبی ماحول سے متضاد ہیں۔ ان میں ترمیم کی ضرورت اسلامی نہیں بلکہ معاشرتی ضرورت ہے۔ مولوی حضرات ہر سطح پر اسلام کو اپنے مفادات اور نظریات کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور نئی نسل کو دین سے بے زار اور برگشتہ کر رہے ہیں۔
چند روز قبل اخبارات میں علمائے کرام کی تصویر شائع ہوئی۔ ہاتھوں میں ہاتھ ملائے ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کے قیام کا اعلان و اعادہ کر رہے تھے۔ انہی کے بزرگ تھے جنہوں نے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری اور آئینی حکومت کے خاتمہ کیلئے نظام مصطفی کے نام پر تحریک چلائی اور اس کا خاتمہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی صورت میں دس سال قوم پر عذاب الہی بن کر سوار رہا۔یہ لوگ جنرل ضیاء الحق کے کوڑے برساتے نظام کا حصہ بنے رہے۔ اب یہ میاں محمد نوازشریف کی آئینی و جمہوری حکومت کے خلاف نظام مصطفیٰ کے نام پر پھر ایک بار جمہوری نظام کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں۔ اسلام ایک جمہوری اور فلاحی نظام ہے اگر پاکستان میں عدل و انصاف قائم ہو جائے تو یہی نظام مصطفیٰ ہے۔ اسکے قیام کیلئے عوام کا فیصلہ بطرز جمہوریت ہونا ہے نہ کہ چند مولوی صاحبان اس ملک کو فقہ اور مسلک کی آگ میں جھونک دیں۔ عوام انکے جذباتی اور استحصالی نعروں سے باخبر رہیں اور جمہوریت کا تحفظ کریں۔ مفکر اسلام و مصور پاکستان علامہ اقبال نے ملائیت کی شدید مخالفت کی تھی۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب ’’اقبال اور ملاّ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی حناح نے بار بار فرمایا کہ پاکستان ایک جمہوری اور فلاحی اسلامی ریاست ہو گا۔ مولویوں کی حکومت نہیں ہو گی عبدالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا مفتی محمود جیسے جید علمائے اسلام نظریہ پاکستان کے مخالف تھے اور آج انکی اولادیں اور معتقدین و مریدین جمہوریت کی بساط لپیٹنے کیلئے اسلام کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بقاء جمہوری اور فلاحی ریاست میں ہے اور یہی ’’نظام مصطفیؐ‘‘ ہے بقول شاعر مشرق علامہ اقبالؒ …؎
بہ مصطفیؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونرسیدی تمام بو الہبیت