پانامہ لیکس کے انکشافات نے جہاں ساری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے وہیں دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے بھی پردہ اٹھایا ہے جو کہ سرمایہ داروں کو تو تحفظ دیتی ہے لیکن ایک عام انسان کیلئے جینا عذاب کر دیتی ہے ۔ آج کا معاشی نظام امیر کو امیر تر بنا رہا ہے اور غریب کیلئے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے ۔ بین الاقوامی ادارے اکسفیم کے مطابق دنیا کی نوے فی صد دولت صرف چودہ سو افراد کے پاس ہے ۔ اب پاکستان کو ہی لے لی جئیے جہاں اگر 58 فی صد لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے تو اسی ملک میں 28 ایسے امراء بھی موجود ہیں جو پاکستان کا کل قر ضہ پانچ مرتبہ ادا کر سکتے ہیں ۔ اگر ہمارے ہاں 78 فی صد لوگ علاج کی صیح سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے جلد قبروں میں اتار دئیے جاتے ہیں تو پاکستان کے صرف دو خاندانوں کی دو سالوں کی آمدن سے ہر مریض کو مفت علاج فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ پانامہ لیکس جس میں دنیا کے بارہ سربراہان مملکت کے نام کسی نہ کسی حوالے سے آئے ہیں جنہوں نے بے نامی کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری دنیا کی نظروں سے چھپا رکھی تھی۔ ان سربراہان یا انکے اہل خانہ کے علاوہ اس میں سیاست دان ، سرمایہ کار، اداکار ، کھلاڑی اور دیگر امور زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی وہ لوگ شامل ہیں جو ٹیکس سے بچنے اور اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے ایسی کمپنیوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ صرف پاکستان سے ہی ابتدائی تفصیلات کیمطابق 200 سے زائد لوگوں کے نام اس فہرست میں شامل ہیں ۔آہستہ آہستہ جب عالمی برادری نے اس پر اپنا رد عمل دینا شروع کیا جیسے کہ آئس لینڈ کے وزیر اعظم عوامی احتجاج کے سامنے بے بس ہو کر مستعفی ہو گئے ، کئی ممالک نے اعلی سطح کے تحقیقاتی کمیشن قائم کر دئیے تو مجبورا ہمارے وزیر اعظم صاحب کو بھی اپنی اور اپنے خاندان کی صفائی دینے کیلئے منظر عام پر آنا پڑا جو کہ عوام کو ورنہ عام طور پر کم ہی خاطر میں لاتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے اپنے چودہ منٹ کے قوم سے خطاب میں اپنی اور اپنے خاندان کے کاروبار کی وضاحت دیتے ہوئے نہ صرف اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں کا ذکر کیا بلکہ اپنے بچوں کے حوالے سے بھی انکے معاملات سے لاتعلقی برتتے ہوئے انکے ذاتی کاروباری معاملات کہ کر اس مسئلے سے جان چھڑوانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اس حوالے سے ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کر ڈالا۔ وزیر اعظم صاحب کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنی مظلومیت کا رونا رونے کی بجائے لوگوں کو ان سوالات کے جواب دیتے کہ انکے کل اثاثہ جات کتنے ہیں ، آخر انکے پاس اتنا سرمایہ آیا کہاں سے ، پھر اس کو بیرون ملک کیسے ، کس ذریعے سے منتقل کیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ وزیر اعظم صاحب کہ اس مسکین سے عدالتی کمیشن کو تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے مسترد کر دیا ۔ اگلے روز وزراء کی ایک لمبی قطار پریس کانفرنس کرنے بیٹھ گئی جس میں نواز شریف صاحب کے اثاثہ جات بتانے ، لوگوں کے اعتراضات کے جواب دینے ، سرمائے کی دوسرے ممالک منتقلی اور دیگر پانامہ لیکس کے حوالے سے انکشافات پر گفتگو کرنے کی بجائے وہ عمران خان صاحب کے شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے الزام تراشی پر اتر آئے ۔ میرا تعلق نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ ہی مقصد کسی کی بے جا تعریف یا تنقید کرنا ہے ۔ لیکن حکومت کے اس عامیانہ رویے نے بہت تکلیف پہنچائی ایک ایسا ادارہ جو کہ اب تک ہزاروں مریضوں کا کینسر جیسے موذی مرض کا مفت علاج کر چکا ہے اور اس ادارے پر لوگوں کے اعتماد کی وجہ سے نہ صرف ایسا ایک ہسپتال پشاور میں بھی بن چکا ہے بلکہ کرا چی میں بھی بننے جا رہا ہے ۔ پانامہ لیکس کے تہلکہ خیز انکشافات پر نواز شریف چار باتوں کیلئے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں جن کو وہ چاہیں بھی تو نظرانداز نہیں کر سکتے سب سے پہلے آف شور کمپنیوں کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری ٹیکس بچانے کیلئے کی جاتی ہے اور حسین نواز نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ٹیکس دینے سے مجھے کونسے نفلوں کا ثواب ملے گا تو جناب جب آپ حکمرانوں کا رویہ ٹیکس کے بارے میں یہ ہو گا تو بڑی بڑی بزنس سلطنتوں کے مالک کیوں آپ کو ٹیکس دینگے ۔ دوسرا اتنی کثیر تعداد میں دولت ملک سے باہر کیسے گئی ، بیرون ملک سرمائے کی منتقلی کس ذریعے سے کی گئی ، تیسرا آپ نے تیسر ی دفعہ وزیر اعظم بننے کے باوجود آج تک اپنے حقیقی اثاثہ جات عوام سے کیوں چھپائے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ میں آپکے اور آپکے بچوں کے نام کل کتنی جائیداد ہے اور کن کن ممالک میں ہے اس کا ریکارڈ کیوں موجود نہیں ہے اور پھر آپ تو بیرون ممالک سے بڑی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں لانے کی بات کرتے ہیں تو آپ جب اپنا سرمایہ باہر کے ممالک میں رکھیں گے اور اس کا فائدہ دوسرے ممالک کو پہنچائیں گے تو پھر باہر کے لوگ آپ کے وعدوں پر کیسے اعتبار کریں گے ۔ آپ ساری دنیا میں کانفرنسوں میں کرو ڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہیں جیسے نومبر 2015ء میں وزیر اعلی شہباز شریف نے ایک International business opportunities in Pakistan کے نام سے پنجاب میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں چانچ سو سے زائد غیر ملکی مندوبین نے شرکت کی اور شہباز شریف نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ آپکے سرمائے کی حفاظت میں خود کروں گا لیکن جب آپ خود اپنا سرمایہ ملک سے باہر رکھیں گے تو دوسرے لوگ کیوں باہر سے پیسہ پاکستان لائینگے ۔
نواز شریف صاحب آپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے وہ قرض بھی اتارے جو ہم پر واجب نہ تھے واقعی آپ نے بالکل درست فرمایا لیکن یہ شعر آپ کیلئے نہیں بلکہ آپکے عوام کیلئے ہے جو کہ پاکستان بننے کے ارسٹھ سال بیت جانے کے بعد بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور حکمران طبقے کی دولت کی ہوس ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ کرپشن میں ہم نے بڑے بڑے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ دنیا کے 9 ان پڑھ ترین ممالک میں شامل ہے شرح خواندگی بڑھنے کی بجائے پہلے سے کم ہوگئی ہے ۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے پاکستان دنیا میں ماریطانیہ اور ہیٹی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے ۔ جبکہ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح 186 ممالک میں سے سب سے زیادہ پاکستان میں ہے ۔ عوام نے وٹوں کے ذریعے جو آپ پر اعتماد کیا اس کا قرض چکانے کا اب وقت آ گیا ہے ۔ اسحاق ڈار صاحب کے بقول صرف سوئس بینکوں میں اس وقت پاکستانیوں کا دو سو ارب موجود ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اور تمام کرپٹ عناصر کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
ہم نے وہ قرض بھی اتارے جو واجب نہ تھے۔۔۔
Apr 09, 2016