انقرہ +ایتھنز(رائٹر+ایجنسیاں) ترک پارلیمنٹ نے یونان سے واپس ترکی بھیجے گئے پاکستانیوں سمیت تمام مہاجرین کو واپس ان کے ممالک بھیجنے کے معاہدے کی منظوری دیدی ہے، غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ترک پارلیمنٹ نے ایسے معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے تحت ترک حکومت اب اس ملک سے پاکستانی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر کے واپس پاکستان بھیج سکے گی۔ یورپی یونین اور ترکی کے درمیان مارچ میں طے پانے والے متنازعہ معاہدے کے تحت یونان سے مہاجرین کے ایک اور250افراد پر مشتمل دوسرا گروپ ترکی پہنچ گیا۔ تارکین وطن کے اس گروپ میں پینتالیس پاکستانی شامل ہیں۔ ادھر ملک بدری کے عمل کی بحالی پر تقریبا تیس افراد نے لیسبوس پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ لوگ ملک بدریاں روکو اور یورپی یونین شرم کرو کے نعرے لگا رہے تھے اور مہاجرین کی آزادی کا مطالبہ کرتے دکھائی دئیے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونانی جزیرے لیسبوس کے ایک پولیس ذرائع نے بتایا کہ پینتالیس پاکستانی مہاجرین کو ایک کشتی پر بٹھا کر ترکی بھیج دیا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ اس دوران امدادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں نے ان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے عمل کو روکنے کی کوششیں کیں تاہم وہ ناکام رہے۔ تین پناہ گزینوں نے احتجاج کرتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگا دی تاہم انہیں کوسٹ گارڈز نے واپس کشتی پر سوار کرا دیا۔ ملک بدری کے عمل کی بحالی پر تقریبا تیس افراد نے لیسبوس پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ لوگ ملک بدریاں روکو اور یورپی یونین شرم کرو کے نعرے لگا رہے تھے اور مہاجرین کی آزادی کا مطالبہ بھی کرتے دکھائی دیے۔ یہ امر اہم ہے کہ اٹھارہ مارچ کو طے پانے والے متنازہ معاہدے کے تحت یونان سے ملک بدر کیے جانے والے ہر تارک وطن کے بدلے ترکی میں موجود ایک شامی پناہ گزین کو یورپ منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بدلے ترکی کو مالی معاونت فراہم کی جانا ہے اور ترک شہریوں کے لیے یورپی یونین میں بغیر ویزے سفر کی سہولیات بھی دی جانا ہیں۔ انسانی حقوق سے منسلک تنظیمیں معاہدے سے نالاں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ترکی کو ان مہاجرین کے لیے محفوظ ملک مانا نہیں جا سکتا۔ رائٹر کے مطابق ترک پارلیمنٹ نے یونان سے واپس ترکی بھیجے گئے پاکستانیوں سمیت تمام مہاجرین کو واپس ان کے ممالک بھجوانے کے معاہدے کی منظوری دیدی ، ترک پارلیمنٹ نے ایسے معاہدے کی منظوری دی جس کے تحت ترک حکومت اب اس ملک سے پاکستانی تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر کے واپس پاکستان بھیج سکے گی۔ پاکستانی تارکین کو پہلے ہی معاہدے کے تحت ترکی واپس بھیجا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ یورپ سے واپس بھیجے جانے والے تارکینِ وطن اپنی پاکستان شناخت ثابت نہیں کر سکے ہیں۔ ترکی کے صدرچپ طیب اردگان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس معاہدے پر عمل اسی صورت میں کرے گا جب یورپی یونین بھی اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ اگر یورپی یونین اس کے لیے ضروری اقدامات نہیں کرتی تو پھر ترکی بھی معاہدے کو نافذ نہیں کریگی۔ لیکن جرمن چانسلر انجیلا مرکل ، جن کے ملک نے سب سے زیادہ لوگوں کو پناہ دی ہے، اس واپسی کے عمل سے کافی خوش لگ رہی ہیں۔ مشرقی فرانس میں اپنے ہم منصب فرانسوا اولاند کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران مرکل نے کہا میں آج بہت خوش ہوں۔ حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ ہمیں جو کام کرنا ہے ہم نے ابھی اسے مکمل طور نہیں کیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ یورپ سے واپس بھیجنے والے تارکین وطن اپنی شناخت ثابت نہیں کر سکے۔
ترکی مہاجرین