لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ عدلیہ میں انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم جسٹس سیکٹرکیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ وکلاءاور سائلین کو گھر بیٹھے تمام معلومات میسر ہونگی‘ فرد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں‘ کوئی بھی ادارہ روڈمیپ کے بغیر نہیں چل سکتا جس کے لئے ریسرچ اور ڈویلپمٹ کا شعبہ ناگزیرہے۔ انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم ایک م¿وثر اور مربوط نظام ہے جس کا سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی میں بڑا کلیدی کردار ہوگا۔ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں نئے انٹرپرائز لیول آئی ٹی سسٹم کی لانچنگ کے حوالے سے تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی قسم کے ریفارمز کی کامیابی کیلئے سارے سٹیک ہولڈر کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم کے معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز میرے ساتھ ہیں۔ 1995ءمیں پہلی بار ہائیکورٹ میں کمپیوٹر آیا تو یہ اس وقت کے لحاظ سے ایک انقلابی تبدیلی تھی اور آج ہم پورے عدالتی نظام کو کمپیوٹرائزڈکرنے جا رہے ہیں۔ موجودہ نظام سے بدعنوانی کے امکانات اور یہ بے یقینی ہے کہ مقدمہ لگے گا یا نہیں۔ ریکارڈ بے ہنگم حالت میں پڑا ہے لیکن انٹرپرائز سسٹم کی بدولت پورے ریکارڈ کو ایک نئی شکل دی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف وکلاءکےلئے آسانی ہو گی بلکہ اس ”بابے“ کی زندگی بھی بدل جائے گی جو حصول انصاف کی غرض سے عدالتوں کے چکر لگاتا ہے۔ ہمارا موجودہ سافٹ ویئر ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ کے کیسوں کا ڈیٹا نہیں سنبھال سکتا تھا۔ فائلیں لانے اور لے جانے میں بھی بڑی خرابی ہوتی ہے۔ جو اس سسٹم کے بعد ختم ہو جائیں گی۔ وکلا کی آسانی کے لئے کیسز کی ای فا ئلنگ ممکن ہو سکے گی۔ وکلا کا سی سی نمبر ختم کرکے شناختی کارڈ کا نمبر استعمال ہوگا۔ کوئی وکیل دوسرے وکیل کی جگہ پیش نہیں ہوسکے گا۔ وکیل اور سائل دونوں کو کیس کے سٹیٹس کی اطلاع ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے موصول ہو جائے گی اور وکلاءاپنے کیسوں کی تعداد گھر بیٹھے دیکھ سکیں گے۔ پولیس نے جتنا کسی ملز م کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے وہ ہمیں مل گیا۔ اب جج کی عدالت میں ایک ملز م کا مکمل ڈیٹا حاصل ہوگا ہے۔ یہ ایک مربوط نظام ہے جس سے سب کو فائدہ ہو گا۔ عدالت عالیہ میں حکم امتناعی اور اراضی کے کیسز کی تعداد کی مکمل دستیابی ہوگی۔وکیل کی سپریم کورٹ مصروفیت کا پتہ چل جائے گا جس سے کیس کو کال کرنے سمیت دیگر قباحتوں سے بچا جاسکے گا۔ عدالتوں کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔ لاہور ہائیکورٹ میں پبلک انفارمیشن افسر نامزد کر دیا ہے۔ ہر معاملے میں شفافیت چاہتے ہیں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ جج صاحبان کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی انفارمیشن یاسوال نہیں پوچھا جا سکتا۔ ہمارے پاس کوئی فیڈ بیک رپورٹنگ سسٹم نہیں تھا جس کے لئے روبوٹ کال لانچ کی جا رہی ہے۔ ایم آئی ٹی کا شعبہ مکمل طور پر تبدیل کیا جارہا ہے۔ انسپکشن جج اگر شکایت پر کارروائی نہیں کرتا تو پندرہ دن بعد شکایت چیف جسٹس کے پاس آجائے گی۔ جوڈیشل افسروں پر کام کا بوجھ ہی نہیں ڈالنا بلکہ ان کی فلاح و بہبود بھی مد نظر رکھنا ہے۔ ادارے کی مضبوطی کے لئے احتساب ضروری ہے‘ بغیر شفاف احتساب کے ادارہ اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف چیمہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کی سادہ نوعیت کی ویب سائٹ ہونے کے باوجود اس تک اٹھارہ کروڑ بار رسائی کی گئی۔
جسٹس منصور