72سال بعد کا ہیروشیما

جاپان میںقیام کے دوران میں نے تاریخی شہر ہیروشیما کا دورہ کیا۔ 72سال پہلے 1945 میں امریکہ نے اس شہر پر ایٹم بم گرایا اور اسے مقام عبرت بنا دیا۔ امریکہ کے B-29بمبار طیارے سے گرائے جانے والے اس ایٹم بم سے چند لمحوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ہیروشیما پر بم گرانے کے تین دن بعد امریکہ نے ایک اور جاپانی شہر ناگا ساکی پر بھی ایٹم بم گرایا جس سے لمحے بھر میں 80ہزار سے زائدانسانوں کی ہلاکت ہوئی۔ہیرو شیما اب ایک بالکل مختلف شہرہے۔ دنیا سے آنیوالے سیاح ٹوکیو کے بعد سب سے زیادہ ہیرو شیما کی سیاحت کرتے ہیں۔ ٹوکیو سے بلٹ ٹرین کے ذریعے 980کلو میٹر کی یہ مسافت تقریباًچار گھنٹے اور بیس منٹ میں طے ہوتی ہے۔ہم بھی اسی ٹرین کے ذریعے Kyotoاور Osakaکے راستے ہیروشیما پہنچے۔دو دریائوں کے کناروں پر بسا ہیروشیما ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ ریلوے سٹیشن کے ساتھ سیاحوں کیلئے اعلیٰ اور اوسط درجوں کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں۔ریلوے سٹیشن ہی سے سیاحوں کیلئے مخصوص بسیں چلتی ہیں۔ اگر آپ نے جاپان کی سیاحت کیلئے غیر ملکیوں کیلئے جاری کئے جانیوالے ریل ٹکٹ لیے ہوئے ہیں تو آپ ہیرو شیما کی سیاحتی بسوں میں بھی اسی ٹکٹ پر مفت سفر کر سکتے ہیں۔ 33ہزار ین(جاپانی کرنسی) یعنی تقریباً تین سو ڈالر میں لیے جانیوالے اس ٹکٹ کے ذریعے آپ جاپان کی تیز رفتار بلٹ ٹرین میں ایک ہفتے تک کہیں بھی جتنی بار چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ عام جاپانی شہری کیلئے ٹوکیو سے ہیروشیما کا دو طرفہ کرایہ تقریباً بیالیس ہزار ین ہے۔ جسے صرف ایک بار استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن سیاحون کیلئے خصوصی طور پر جاری کیے جانیوالے اس" ریل پاس" سے آپ جاپان بھر میں لا محدود سفر کر سکتے ہیں۔ آج کا ہیروشیما دنیا کا ایک جدید ترین شہر ہے۔ جاپانی قوم نے اس شہر کی تعمیر نو کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ" راکھ "بننے والی اس سرزمین کو بھی "گل و گلزار" کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ویسے تو ہیرو شیما میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس شہر کے دو مقامات ایسے ہیں کہ جہاں ہمہ وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ایک وہ مقام ہے جسے Bomb Domeکہا جاتا ہے۔ یہ کئی منزلہ ایک ایسی عمارت ہے جس کا ڈھانچہ ساخت کی مضبوطی کی وجہ ایٹمی حملے سے کسی حد تک بچ گیا تھا۔ تا ہم اسکے تمام مکین اور ساز و سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ اس عمارت کے ڈھانچے کی دیواروں پر اب بھی انسانی جسم اور یہاں کبھی موجود چیزوں کے سائے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ابتداء میں ان سایوں کو جن اور بھوت کے سائے قرار دیا جاتا تھا لیکن جدید سائنسی تحقیق کا کہنا ہے کہ یہ سائے ایٹمی شعائوں کے انسانی جسم سے گزرنے کے بعد "ایکسرے " کی طرز پر ان دیواروں پر ظاہر ہوئے ہیں۔اس عمارت کے گرد مضبوط جنگلہ لگا کر سیاحوں کو اندر جانے سے روک دیا گیا ہے تا ہم خصوصی اجازت سے اسے اندر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس تاریخی عمارت کے گرداگرد اب ایک خوبصورت پارک اور دریا رواں دواںہے۔ جہاں دنیا بھر کے سیاحوں کا ہجوم تصویریں بناتا نظر آتا ہے۔ ہیروشیما کا دوسرا اہم ترین مقام Peace Memorial Park یا" امن یاد گار پارک" ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہر سال ایٹمی حملے میں ہلاک ہونے والے افراد اورشہرکی ہولناک تباہی کی یاد میں سالانہ تقریب ہوتی ہے جس میں جاپانی قوم دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے اپنی حتی المقدورکوششیں کرکے عزم کا اظہار کرتی ہے۔ ہم نے بھی ہیروشیما میں قیام کے دوران ان تمام یادگاروں کا دورہ کیا ۔خاص طورپر امن یادگار پارک میں قائم ہیروشیما میوزیم بہت حد تک ایک زندہ تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ترقی کے مثالی ملک جاپان نے اس میوزیم میں اپنے اس اس ہولناک تاریخی لمحے اور اسکے اثرات کو جس طرح محفوظ کیا ہے اس سے دنیا بھر کے عجائب گھروں میں اس میوزیم کو منفرد مقام حاصل ہے۔ اس میوزیم کے دورے کے ذریعے آپ ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے کے سرسبز و شاداب دریائوں کی سرز مین ہیروشیما میں زندگی کی چہل پہل دیکھتے ہیں اور پھر اچانک ایٹمی دھماکے کے صوتی اور تصویری اثرات آپ کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ چند لمحوں میں ہنستا بستا شہر راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اور پھر انسانیت کے اس اذیت ناک عمل کے اثرات سے نسلیں کیسے متاثر ہوئیںا نہیں دیکھ کر سیاحوں کے دل لرز اور قوت گویائی سلب ہو جاتی ہے۔ ہیروشیما میں ایٹمی تباہی اور اسکے اثرات پر بہت سی تحقیقی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ انہی میں سے ایک کتاب میں ہے کہ ایٹمی حملے کے بعد زندہ بچ جانے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ایٹمی حملے کی چندھیا دینے والی چمک سے آنکھوں کو بچانے کیلئے میں نے ہاتھ اٹھائے تو اسکے چہرے اور ہاتھ کا گوشت لٹک گیا۔ ہر طرف لوگ مدد کیلئے پکار رہے تھے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اسکے جسم کے اعضاء الگ کیوں ہو رہے ہیں۔ گوشت کیوں پگھل رہا ہے۔ لوگوں کی آنکھیں ، انکے چہروں سے باہر لٹک رہی تھیں اور انکے حلقے خالی تھے۔ تابکاری کے اثرات سے انکے بال گر رہے تھے اور جسم پر دھبے نمودار ہو رہے تھے۔ زندگی کی اذیت سے گزرنے والے موت کی دعا کر رہے تھے۔ ایٹمی حملے کے ساتھ ہی موت کی پہلی لہر نے ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا دیا۔ دوسری لہر نے لاکھوں کو اور تیسری لہر نے اذیت کا ایسا منظر دکھایا کہ لوگ پہلی اور دوسری لہر میں مرنے والوں پر رشک کرنے لگے۔یروشیما پر برسایا جانیوالا بم 6اگست 1945کو صبح آٹھ بج کردس منٹ پر زمین کی سطح سے تقریبا 1800 فٹ بلندی پر پھٹاجسکی تابکاری کے اثرات نصف صدی سے زائد عرصے تک دیکھنے میں آتے رہے۔قابل تعریف اور قابل تقلید ہے جاپانی قوم کے اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے جانیوالے ایٹمی بموں اوردوسری جنگ عظیم میں ٹوکیو اور دوسرے شہروں میں شدید بمباری اور عظیم جانی اور مالی نقصان کے باوجود ہمت نہ ہاری اور اپنے ملک کو اب دنیا کی نہ صرف یہ کہ تیسری بڑی معیشت بنا دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں امن اور بھائی چارے کے قیام میں ہر اول دستے کا کردار ادا کررہی ہے۔یہی زندہ قوموں کی پہچان ہے۔

ای پیپر دی نیشن