نئے تعلیمی سال کا پرانے مسائل کے ساتھ آغاز

مکرمی! نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو گیا ہے۔ بچوں نے اپنی اپنی محنت کا انعام پا لیا ہے اور اب اگلی کامیابی حاصل کرنے کے لئے سکول کا رستہ لیا ہے۔دوسری جانب معاشی تنگدستی کا شکار عوام پر ہر سال تعلیمی اخراجات کا حملہ بھی متوسط طبقے کی کمر توڑ دیتا ہے۔ پرائمری سے لے کر ہائی کلاسز تک بچوں کی کتابوں‘ اسٹیشنری ،نئے بستوں اور نئی وردی کے خرچے کا جن ان دنوں منہ کھولے کئی مجبور والدین کو نگل رہا ہوتا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں تو بالخصوص انگریزی میڈیم کے نام پر بھاری بھرکم فیسیں اور بچوں کی ضرورت سے زیادہ نگہداشت کا بھی سالانہ فنڈ مقرر ہے۔ تعلیمی قابلیت کا مقام تو یہ ہے کہ گزشتہ کئی عشروں سے بے ترتیب نصاب اور منقسم تعلیمی نظام ملک میں چل رہا ہے۔ ابتدائی درسگاہ ہی بچوں کے کردار اور مستقبل میں سب سے بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اسی سطح پر استاد اور تدریس کی اہمیت کا اندزہ ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے تعلیمی اداروں‘ اساتذہ اور کوچنگ سنٹرز کی تو بہت بھرمار ہے مگر علم دان پیدا نہیں ہو رہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی57 فیصد ہے۔ جبکہ ہمسایہ ممالک میں سری لنکا اور بھارت ہم سے آگے ہیں۔پاکستان میں تعلیمی مسائل کا انبار ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی،غربت، سکولوں کی کمی اور بالخصوص تعلیم بالغاںکے منصوبوں کا فقدان جیسے مسائل کے حل کا کوئی جامع پلان موجود نہیں۔ بظاہر تو یہ مسائل ترقی پذیر ممالک میں دیکھنے میں آتے ہیں، مگر ہمارے ہاں جاری دیگر بھاری اخراجات والے منصوبوں کو دیکھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم جیسے اہم مسئلہ پر توجہ کو فوقیت حاصل نہیں۔ محض ادارے قائم کرنے سے تعلیمی پسماندگی کا دور ہونا ممکن نہیں۔کسی چیز کا معیار جانچنے کے لئے اس کی خوبیوں اور خامیوں کا احاطہ کرنا پڑتا ہے۔ مرکز سے پورے ملک کے تعلیمی انتظام و انصرام کو دیکھنا ،ضروریات و معاملات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔صوبائی محکمہ تعلیمی نظام کی ترقی کا ذمہ دار ہونا چاہیئے۔وفاقی حکومت قومی تعلیمی پالیسی مرتب کرتی ہے مگر صوبائی محکمہ تعلیم اپنے صوبے میں اس پالیسی پرعملدرآمد کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ تعلیمی نظام متعلقہ افراد کے ہاتھوں میں نہ ہونے کی وجہ سے نظام پٹڑی سے اتر چکا ہے ضرورت ہمیں اس امر کی ہے کہ ایسی تعلیمی پالیسی مرتب کی جائے جو معاشرے کی سمت کا تعین کر سکے۔ (عدنان عالم)

ای پیپر دی نیشن