سانحہ ماڈل ٹاﺅن چیف جسٹس کا تاخیر پر نوٹس تفصیلات طلب....

لاہور (وقائع نگار خصوصی‘ نوائے وقت نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے متاثرین کو انصاف میں تاخیر کا نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب حکومت سے انصاف میں تاخیر کی وجوہات اور تفصیلات طلب کرلیں۔ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن میں شہید ہونے والی خاتون کی بیٹی بسمہ نے چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار سے ملاقات کی۔ بسمہ نے فاضل عدالت کو بتایا کہ چار سال گزر گئے ابھی تک انصاف نہیں۔ متاثرین نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے مقدمہ میں سست روی اور تاخیر کی شکایت کی اور بتایا کہ چار برس گزرنے کے بعد مقدمہ پر کارروائی مکمل نہیں ہوئی اور ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف ملے گا۔ میرے ہوتے ہوئے کسی سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایات دیں کہ انصاف میں تاخیر کی وجوہات اور تفصیلات پیش کریں۔ فاضل عدالت نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے بھی مقدمہ ہونے والی پیش رفت کی تفصیلات طلب کر لیں۔گزشتہ روز سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے متاثرین نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کے باہر مقدمہ کی سماعت مکمل نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار عدالتی امور کی انجام دہی کے لئے چھٹی کے باوجود سپریم کورٹ لاہور رجسٹری پہنچے تو متاثرین ماڈل ٹاو¿ن اپنی فریاد لیکر آگے بڑھ گئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے متاثرین کو ملاقات کیلئے بلالیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ مزید سماعت 14 اپریل کو کرے گا۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن شہداءکے لواحقین اور دیگر مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ جن پر چیف جسٹس پاکستان سے انصاف کے لئے ازخود نوٹس کی اپیل اور” سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہداءکا انصاف دلوائیں“ کے نعرے درج تھے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے قائداعظم سولر پاور پلانٹ اور پاور کمپنیوں پر ازخود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس نے قائداعظم سولر پاور پلانٹ پر آنے والی لاگت، بجلی کی پیداوار اور اخراجات کی مکمل تفصیل عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کردیا۔پاور کمپنیوں کی کارکردگی اور اخراجات کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائیں۔14 اپریل کو چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مکمل رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ دریں اثناءچیف جسٹس آف پاکستان نے صاف پانی کی تشکیل سے متعلق چیف ایگزیکٹو آفیسر صاف پانی کی رپورٹ مسترد کر دی ۔فاضل عدالت نے صاف پانی کرپشن سکینڈل میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کو 14 اپریل کو طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گزشتہ روز صاف پانی ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ فاضل عدالت نے چیف ایگزیکٹو کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ احتساب سب کا ہوگا قوم کی ایک ایک پائی وصول کروں گا۔ جنہوں نے کمپنیوں میں تقرریاں کیں پیسے ان سے بھی وصول کئے جائیں گے۔تمام کمپنیز کے سی ای اوز کو سرکاری ملازمت کے برابر تنخوا ہ ملے گی۔فاضل عدالت کے رو برو چیف سیکرٹری پنجاب نے صاف پانی کمپنی میں 400 کروڑ کے اخراجات کا اعتراف کر لیا۔ منصوبے پر 400 کروڑ لگنے کے باوجود شہریوں کو مطلوبہ معیار اور مقدار میں پانی میسر نہیں آیا۔ چیف سیکرڑی پنجاب نے یہ بھی کہا کہ صاف پانی کمپنی میں معاملات اوپر جانے کی بجائے نیچے آتے رہے۔ فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ صاف پانی کی فراہمی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ جب تک یہ عدلیہ ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی۔ فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما زعیم قادری کے بھائی عاصم قادری اور بیگم عظمیٰ قادری کو کس اہلیت پر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا گیا۔ جس پر سرکاری افسر کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ فاضل عدالت نے مزید قرار دیا کہ14 لاکھ روپے دے کر سرکار کے ملازمین کو نوازا جا رہا ہے تاکہ کسی موقع پر ان سے بھی کام لیا جا سکے۔اتنے اخراجات اشتہاری مہم پر خرچ کر دئیے گئے لیکن منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا ´۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قوم کا پیسہ ہے واپس قومی خزانے میں جائے گا سب کا احتساب ہو گا۔ سابق سی ای او صاف پانی وسیم اجمل نے فاضل عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کی ہدایات پر مقامی ماہرین کو ہٹا کر بیرون ملک سے ماہرین بلائے گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اختیارات نہ ہونے کے باوجود صاف پانی کمپنی میں احکامات دئیے۔ فاضل عدالت نے صاف پانی کرپشن سکینڈل میں پراسیکیوٹر جنرل نیب کو 14 اپریل کو طلب کر تے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔ چیف جسٹس نے رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کیس نیب کو بھجوا دیا اور سی ای او صاف پانی کمپنی محمدعثمان کو تمام تنخواہیں واپس کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کی تمام کمپنیوں کے سربراہوں کو بلا¶ں گا اورکمپنیوں کے سربراہوں سے تنخواہیں واپس لی جائیں گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب تک یہ عدلیہ ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی۔ بتایا جائے کہ زعیم قادری کے بھائی،بیگم کوکس اہلیت پربورڈ آف ڈائریکٹرزمیں شامل کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے اخراجات اشتہاری مہم پر خرچ کر دئیے گئے لیکن منصوبہ مکمل ہی نہیں ہوا،یہ قوم کا پیساہے واپس قومی خزانے میں جائے گااورسب کا احتساب ہو گا۔مزید برآں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہسپتالوں کی حالت زار اور وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی تعیناتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ فاضل عدالت نے ہسپتال کی ایمرجنسی میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جاری فیصلے کی روشنی میں سہولیات پوری کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف سیکرٹری نے فاضل عدالت کو بتایا کہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں سہولیات کے فقدان کے حوالے سے لسٹ اپ کو مہیا کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ اس میں کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ عدالتی احکامات کے بعد جو اقدامات کئے گئے ہیں اس سے آگاہ کیا جائے۔ وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی تعنیاتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے فاضل عدالت نے سرچ کمیٹی کے ممبران کو 14 اپریل کو طلب کر لیا۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وی سی ظفر تنویر کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ جن پر تکیہ کرتے تھے وہ ہی دغا دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر فیصل مسعود کو دو بیڑیوں میں پاو¿ں نہیں رکھنے دیں گے۔اس عدلیہ کے ہوتے ہوئے سفارشوں پر کام نہیں کرنے دیں گے۔ ذوالوجی کے پروفیسر کو میڈیکل یونیورسٹی کا وی سی لگا دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے ساتھ چلنا ہے تو دیانتداری کے ساتھ چلیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ آپکو ہدایات ملتی ہیں تو آپ سفارش پر لوگوں کو تعنیات کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سرچ کمیٹی کے ممبران کے نام بتائیں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کمیٹ ممبران کے نام بتائے۔ زوالوجی کے پروفیسر کی تقرری کا حوالہ دیا گیا تو جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ میڈیکل کالج کو جانوروں کا ہسپتال بنانے لگے ہیں۔ کیا اسی لئے ذوالوجی کا پروفیسر وہاں پر لگا دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر تنویر پی ایچ ڈی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاﺅن

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...