آزادی وہ نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کسی شخص کو اس کے جرم کی نوعیت اور Gravity کو مدنظر رکھ کر قید یا قید تنہائی کی سزا دیا جانا اس امر کی واضح طور پر تصدیق کرتا ہے ۔ کہ گو وہاں ایک قیدی کے طور پر اسے خورد نوش کی تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں مگر آزادی ان سب پر بھاری ہے۔آج بین الاقوامی سطح پر فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دو ایسے بڑے اندوناک مسئلے ہیں جہاں پر طاقت کے زور پر یہودیوں اور بھارتی نیتاؤں نے وہاں کے نہتے اور بے گناہ افراد کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور آئے دن وہاں پر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ ان دونوں Cases میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ وہاں پر قائم ریاستیں غیر قانونی ہیں اسی لیے عرف عام میں اسرائیل کو دنیا کا Illegitimate child یعنی حرامی بچہ قرار دیا جاتا ہے۔
دراصل مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مشابہت یہ ہے کہ وہاں پر قائم دونوں حکومتیں غیر قانونی طور پر قائم کی گئی ہیں۔ فلسطین کے علاقے پر یہودیوں کو آباد کرنے کا سہرا عالمی طاقتوں کے سر ہے۔ نیز کشمیر کے حوالے سے بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے۔ جن اصولوں کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت الگ دو ممالک کی صورت میں قائم ہوئے ان کی رو سے پورا کشمیر ، جونا گڑھ اور حیدر آباد (دکن) کو پاکستان میں شامل ہوناتھا۔ مگر بھارت مسلمانوں کی ریاستوں کو ایسی غلامی میں رکھنا چاہتا تھا اس لئے اس نے ان جگہوں پر طاقت کے بے جا اور غیر قانونی استعمال سے قبضہ کرلیا جبکہ پنڈت نہرو نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر پورا کا پورا پاکستان میں شامل ہوگا۔ اس صورت حال کے پیش نظر جب پاکستان نے اپنے قبائلی مجاہدین کی مدد سے وہاں آزادی کی جنگ شروع کی تو بھارتی افواج پسپا ہوگئیں اور دھوتی پرشاد بھاگتا ہوا UNO میں چلا گیا۔ کشمیر میں جنگ بندی ہوگئی اور اس عالمی ادارے کے فیصلے کے مطابق کشمیر میں آزادانہ رائے شماری پر اتفاق ہوا۔ جس کی اس وقت بھارتی وزیر اعظم نے توثیق بھی کی ۔ مگر اس وقت تک بھی مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ رائے شماری نہیں کروائی گئی ۔ بھارت نے مکرو فریب کے ذریعے وہاں پر اپنا اقتدار قائم کیا ہوا ہے۔ آجکل آزادی کے متوالے کشمیری روزانہ 6 لاکھ بھارتی فوجیوں اور پیرا ملٹری افواج کے خلاف آزادی کے حصول کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ پورا مقبوضہ کشمیر جیل بنا ہوا ہے۔ ابھی تک ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ جن کی اجتماعی قبریں ہر علاقے میں موجود ہیں ۔ خواتین اپنی عزت بچانے کے لئے خود کشی پر مجبور ہیں۔ ایک غیر ملکی سیاح جسے اس علاقے میں جانے کا موقعہ ملا کہتا ہے۔ علاقے کے چپے چپے پر بھارتی فوجی تعینات ہیں اور وہ ہر کشمیری کی تلاشی لیتے ہیں اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔ سینئر رہنما میر واعظ اور جناب وائیں زیادہ وقت گھروں میں نظر بند رہتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق بھارت آجکل بڑی شدت سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں بہت زیادہ ہلاکتیں روزانہ دیکھنے میں آتی ہیں اس ماہ پچھلے اتوار کے دن بھارتی افواج نے ظلم اور بربریت کی انتہا کردی جس میں جنوبی مقبوضہ کشمیر میں 20افراد شہید اور 200 افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ جبر اور استحصال کے حوالے سے اب تک ہونے والے لا تعداد واقعات میں سب سے منفرد تھا کیونکہ اتنی تعداد میں ایک دن میں کبھی پہلے اتنی ہلاکتیں اور د ل گیر واردات نہیں ہوئیں۔
بھارتی اپنی دہشت گرد انہ کاروائیوں کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کاروائیاں کشمیری تخریب کار(Militants)کے خلاف کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے شہید ہونے والے سب بچے اور نو عمر ہیں ۔ فلسطین میں بھی قتل و غارت کا یہی جو از پیش کی جاتا ہے ۔ بھارتی فوجی تمام قسم کے ہتھیاروں (Small Arms)مثلاً آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں وغیرہ سے لیس ہوتے ہیں جبکہ بھارتی غیر قانونی قبضے کے خلاف احتجاج کرنے والے مجبوراً پتھر وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ وہاں کے موجودہ حالات کے پیش نظر اور زیادہ کشت و خون ہونے کا خدشہ ہے۔ ان حالات کا بین الاقوامی طاقتوں کو نوٹس لینا چاہیے۔ مگر ہم ان طاقتوں کو کس طرح مورز الزام ٹھہرا سکتے ہیں جبکہ اپنے ملک سے صرف وزیر اعظم خاقان عباسی کے علاوہ کسی نے اس سلسلے میں قابل قدر بیانات جاری نہیں کیے۔ جہاں تک عالمی ادارےO UN کا تعلق تو وہ کمال سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش ہے۔ UNO کی قرادادوں کی موجودگی کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں یو ان او کے مبثر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ دراصل کوئی بھی بڑی طاقت بھارتی ترقی سے فوائد حاصل کرنے کی غرض سے اس کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرنے سے مکمل طور پر گریزاں ہیں۔ اس آزادی کی جدوجہد میں صرف بے گناہ اور نہتے نوجوان شامل ہیں۔ عالمی طاقتوں کے اس مایوس کن رویے کی وجہ سے بھارتی درندے بے خوف و خطر وہاں پر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ لیکن انسانیت کا تقاضا یہ نہیں ۔ عالمی طاقتیں اس قدر جو ر و جبر اور درندگی کے خلاف آواز اٹھا کر انھیں اس حد سے نیچے گرنے سے تنبیہ کر سکتے ہیں۔
دراصل اس سارے مسئلے میں ہماری اپنی کوتاہیاں بھی شامل ہیں کیونکہ پاکستان کی طرف کشمیریوں کو ان کے حق دلانے کے لئے کی جانے والی تمام کاوشیں بڑی Luke Warm اور کمزور ہیں ۔ سابق وزیر اعظم کا کابینہ میں کل وقتی وزیر خارجہ مقرر نہ کرنا ملک کے لئے بے حد نقصان کا باعث بنا۔جس کی وجہ سے ہم نہ خارجہ تعلقات بنا سکے اور نہ خارجہ طاقتوں میں وقار بحال کرسکے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے پہلے قدم کے طور پر دونوں ممالک کو علاقے کو غیر فوجی علاقہ(Demilitries) بنا دینا چاہئے۔ اس کے بعد وہاں پر ریفرینڈم کروایا کیا جائے اور فیصلہ کشمیریوں پر چھوڑ دیا جائے۔ کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قطع نظر اس کے کہ کونسی پارٹی اقتدار میں ہے، کشمیر کی آزادی کے لئے جدو جہد کو ہر سطح پر اجاگر کیا جائے۔ اس وقت ہم نے بھی اس مسئلہ کو ایک Routine Matter بنا رکھا ہے۔ اور وہاں کے باسی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب ان کی بھر پور مدد کریں گے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے یہ ہمارا فرض بھی ہے اس سلسلے میں سورۃ نساء آیت104 میں ہے کہ۔" اور کفارکا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا۔ اگر تم نے آرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بے آرام ہوتے ہو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں۔ اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔"
کیا ہم اس حکم باری تعالی پر عمل کرتے ہیں؟
’’ اور کفارکا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا‘‘
Apr 09, 2018