زندگانی کی حقیقی فلم میں ہیرو اور ولن میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ میک اپ اور اداکاری اکثر مات دے دیتے ہیں!سب اپنی جگہ مگر میرے ہیروز بلاشبہ اور بلا مبالغہ ہیروز ہیں۔ ان پانچ ہیروز کا تذکرہ بعد میں، پہلے تھوڑا سا۔۔۔۔ ؟
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
اپنے آپ کو اور رعایا صفت عوام کو معصوم کہوں، لائی لگ کہوں، بھولے بھالے کہوں یا جو قاری کہے وہ کہوں ؟؟ جو بھی ہے، پاکستانی عوام ہیں سپیشل، بہت سپیشل کہ سدا آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے رکھتے ہیں اور تجربات دہراتے رہتے ہیں! سنئے کہ، کچھ لوگ کہتے ہیں موٹروے پر سفر کی آسانی، ہسپتالوں میں ادویہ کی موجودگی، لوڈشیڈنگ کی کمی تبدیلی اور کامیابی نہیں تو کیا ہے؟ ہمارے ایک ملتان کے ڈاکٹر دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ، جن کو میاں نواز شریف پسند نہیں وہ موٹر وے پر سفر نہ کریں،( ہنسنا منع ہے) ماضی میں ہمارے اس دوست کے لئے پیپلزپارٹی بہت بڑا گناہ، جنرل ضیاء الحق مرد مومن اور جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ کوئی بھی انقلاب برپا نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اب ان کا مؤقف ہے کہ، بھٹو بھی ٹھیک تھا لیکن اس وقت ہم نہ سمجھے ، (ڈر لگتا ہے اگر بھٹو صاحب اور بی بی کو رفتہ رفتہ ایسے ہی قومیا لیا گیا تو پی پی پی کے پاس کیا بچے گا؟ ) اور آج نواز شریف کا بیانیہ بھی درست ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ، "محبت" لڑکپن کی ہو یا بڑھاپے کی یہ اندھی ہوتی ہے۔ کچھ ہفتے قبل کی اس ملاقات میں ڈاکٹر صاحب اپنے پیشے کے اعتبار سے کہنے لگے کہ، واہ جی واہ، اب تو ہسپتالوں میں سہولتیں ہی بہت ہیں۔
پہلی بات، یہ کہ ہم ڈاکٹر صاحب کو عوام نہیں خواص سمجھتے ہیں۔ دوسری بات، ہم پورے احترام سے ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ارتقاء کو انقلاب کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ موازنہ ہی کیا اگر اکیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان کیا جائے۔ اب ہم کمپیوٹر جنریشن اور سیل فون جنریشن ہیں، مطلب یہ کہ صرف پاکستان میں نہیں ، گلوبل ولج میں رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ، ملائشیا اور چائنہ پاکستان کے ہم عمر ہیں اپنی قیادت اور اس قیادت کا مقابلہ کرکے دیکھیں؟ خیر، ہم ماہر معاشیات تو نہیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ2013 کے بعد نواز حکومت پر قسمت کی دیوی نے چھاؤں کئے رکھی، زرداری حکومت کے مقابلہ میں: (1) عالمی منڈی میں پٹرول سستا، (2) کوکنگ آئل سستا، (3) ڈالر کی گراوٹ، (4) سی پیک کے ثمرات کا آغاز۔ پس اس گڈ لک میں جو نتائج ممکن تھے وہ بہرحال حاصل نہ ہوسکے۔ جو اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔پچھلے تین چار عشروں کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ، سیاسی رہنماؤں، عسکری قیادت، بیوروکریسی اور اعلی عدلیہ نے فراہمی انصاف، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں جوکرنا چاہئے تھا وہ کچھ نہیں کیا۔ کیا تھا وہ اگر عوام کے ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ نہیں سمجھنا چاہتے تھے، تو نہ سمجھتے کم از کم عوام تو سمجھتے، رعایا نہ سمجھتے؟پھر ہوا کیا کہ 18 سال ناکام رہنے والا سیاست دان یکایک قبل از انتخابات 2013 سیاسی ہیرو بن گیا۔ اس بنیاد پر نہیں کہ 18 سال میں اس نے کوئی بین الاقوامی سیاسی یا معاشی تھیوریز بنائیں یا سوشل سیکٹر میں کوئی کمال کردیا۔ بس اس لئے وہ ہیرو ٹھہرا کہ، پی پی پی اور مسلم لیگ کی بدعنوانیوں اور من مانیوں کے ری ایکشن میں کچھ نے کہا کہ، ارے یار اس نئے ہی کو آزما دیکھیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نیا سیاسی سماں بن بھی گیا اور بندھ بھی گیا۔ پھر کیا ہونا تھا؟ وہی پرانا جال اور نیا شکاری۔ اب عالم یہ ہے کہ پچھلے رمضان سے اس آنے والے رمضان تک دھڑا دھڑ لوگ نیو ق لیگ میں جائیں گے اور مرادیں پائیں گے۔ یہ کہیں وہی پرانی سائنس اور اولڈ فیشن انفراسٹرکچر کی تراش خراش تو نہیں؟ بہرحال ہم نے تو سال بھر پہلے چند وزراء اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ عباسی کو کہا تھا کہ یہ سب ہوگا مگر وہ مانے نہ تھے۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا! اللہ بھلا کرے ان عوام کا، اور ان کے حسن ظن کا، عصر حاضر میں ان کے پانچ ہیروز ہیں اور پانچوں پر تکیہ ہے۔ ہاں میں خود ان پانچ ہیروز کا پرستار ہوں ، اور کہتا ہوں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔
یہ پانچوں ہیروز : (1) سابق وزیراعظم میاں نواز شریف (2) عمران خان (3) بلاول بھٹو زرداری (4) آرمی چیف (5) چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اپنا اپنا کردار صدق دل سے ملک و ملت کیلئے وقف کریں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ، کالا باغ ڈیم ، اعلی تعلیم، اعلی معیشت، عالمی برادری میں اعلی نام، فراہمی انصاف میں اعلی مقام اور امور صحت میں اعلی سطح نہ بنیں !!! مگر اخلاص پہلا قرینہ ہے کامیابی کے قرینوں میں جیسے ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ دوسرا قرینہ حرص و ہوس سے ترک تعلق ہے۔ تیسرا قرینہ یا تیسرا قدم کامیابی کی منزل پر ہوگا۔ گر یہ نہیں، تو پھر بگ نو !چلتے چلتے، کچھ کرنٹ افئیرز کا تذکرہ بھی اپنے ہیروز سے گوش گزار کرنا بھی مقصود ہے جس سے عوام کو کرنٹ لگتے رہتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں:
(1) عرض کرچکا کہ، ماہر معاشیات نہیں مگر بات تو سمجھتا ہوں، ایک تجزیہ نگار کا وزیراعظم عباسی کی حالیہ ایمنسٹی پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیے اور پرکھئے خود، "پاکستان میں اس سے قبل ایسی 9 ٹیکس ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں مگر ان اسکیموں کا زیادہ فائدہ نہیں ہوا ہے اور وہ تمام ہی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا قبرستان بن گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا اور موجودہ اسکیم بھی لگتا ہے اپنا کفن ساتھ ہی لائی ہے۔"
(2) دوتین دن قبل کابینہ کے اجلاس میں جب بھارتی سرحدی دہشت گردی پر کشمیر کے تناظر میں اجلاس ہوا تو مباحثے میں متعدد وزراء کا طرزتکلم محض "طرزتکلف" ہی تھا۔ معذرت کے ساتھ وزیر امور کشمیر قبلہ برجیس طاہر نے یوں تقریر جھاڑی جیسے کشمیر کی کسی بستی کے مکینوں کو بیک وقت سبز باغ دکھا اور حوصلہ دے رہے ہوں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر یوں خاموش تھے جیسے سانپ نے سونگھا ہو۔ کاش وزیراعظم عباسی وفاقی وزیر کے برابر چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن ہی کو مدعو کرلیتے، (عباسی صاحب! کچھ وفاقی وزراء شہباز شریف کے بجائے آپ کو اگلے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر چاہتے ہیں، ہم نے اپنے گنہگار کانوں سے سنا ہے۔) کابینہ اجلاس میں کسی وزیر نے درست جملہ کسا کہ، مولانا کا تلاش گمشدہ کا اخبار میں اشتہار دیں۔ المختصر، وزراء کی اکثریت کے مشورے تھے کہ، جمعہ کو کشمیر سے یک جہتی منائیں، ایل او سی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں۔ کشمیر پر بیان دیں، رائے عامہ ہموار کریں وغیرہ وغیرہ۔ ارے یہ تو این جی اوز والی باتیں کوئی بھی کرسکتا ہے۔ رائے عامہ کی ذمہ داری جماعت اسلامی آپ سے بہتر نبھا سکتی ہے۔ ہاں، سرتاج عزیز کی گفتگو بالغ نظری پر مشتمل تھی کہ، یہ محض رسمی معاملہ نہیں، پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ کی گفتگو بطور مشیر اور وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی گفتگو وزراء سے ہزار درجہ بہتر تھی کہ بحیثیت قوم ٹھوس موقف اپنایا جائے یہ کشمیر میں نسل کشی اور نظریہ پاکستان کا معاملہ ہے پس بھارت کو بہتر مثبت جواب دینا ضروری ہے۔ اس ضمن میں وزیر خارجہ خواجہ آصف کی ترکی، سعودیہ اور روسی حکام سے گفت و شنید قابل ستائش ہے۔ سعودیہ اور روس کو کم ازکم انسانی حقوق کی خاطر منظم اقدام اٹھانا چاہئے۔ وزیر خارجہ کی جانب سے سعودیہ کو او آئی سی بلانے کی اپیل درست ہے۔ لیکن ان تقریبا 22 ممبران اسمبلی نے کچھ کیا کہ محض شیر سپاٹا کیا جن کو امور کشمیر کے ضمن میں ایلچی بنایا گیا تھا؟ آہ، ان میں متعدد تو مسئلہ کشمیر سے تھے ہی ناآشنا!
(3) آج 71 سال بعد بھی عدالت عظمی کو تعلیم و تربیت میں مداخلت کرنی پڑ رہی ہے کہ، آپ وائس چانسلرز سفارشی اور سیاسی لگاتے ہیں گویا سرچ کمیٹیاں ان کا ریکارڈ لائیں۔ کیا یہ کام کسی سیاسی ہیرو کو خود نہیں کرلینا چاہئے تھا؟ کچھ عرصہ قبل پنجاب میں تقرریوں پر وزارت و حکومت و محکمہ اور سرچ کمیٹی کی کم فہمیاں دیکھ کر مرکزی و صوبائی ایچ ای سی اور محکمہ کے دائرہ کار عدالت عالیہ کو بتانے اور سمجھانے پڑے۔ یہ بھی غور کریں، مرکزی ایچ ای سی چئرمین کا دورانیہ ایک ہفتہ بعد ختم ہونے والا ہے، اور معاملہ ایڈہاک ازم کے بے رحم پنجوں میں جائے گا مگر 18 ویں ترمیم کے بعد کے نام نہاد فل وفاقی وزیر تعلیم عزت مآب بلیغ الرحمان صاحب خواب خرگوش کے خوب مزوں میں ہیں۔ یہاں بھی کہیں عدالت ہی کو؎؎
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تْو بھی تو دِلدار نہیں!
وزیر صحت پنجاب سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے "کارکردگی" کی پوچھ گچھ کی۔ طبع نازک پر سب ناگوار تو گزرا ہوگا؟ دلچسپ بات یہ کہ، ہم نے پچھلے دنوں اپنے نالج کیلئے پنجاب کے دو ایڈیشنل سیکرٹریز سے پوچھا کہ، (1)پنجاب فارمیسی کونسل کو مستقل سیکرٹری کیوں عنایت نہیں کررہے؟جواب ملا کونسل سیکرٹری سے پوچھ لیجئے۔ اب کسی عارضی اضافی چارج والے کو خود کیا معلوم ہوگا؟ جناب وزیر سلمان رفیق سے پوچھا تو وہ جواب ملا جو دوست کے حوالے سے ناقابل اشاعت ہے۔ بہرحال پنجاب صحت میں کسی حد تک بہتر ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ مرکز کا ڈریپ اور فارمیسی کونسل کا ریکارڈ عدالت میں منگوانے کی ضرورت ہے۔ مگر ہم تو عوام ہیں بھئی، اپنی کون سنے گا۔ بہرحال ہم اکلوتے سہی تاہم ہمارا حسن ظن جواں ہے اپنے پانچوں ہیروز کے لئے!
پانچ ہیروز میں اکلوتے عوام!
Apr 09, 2018