وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا شمار ملکہ کوہسار مری کے ان قد آور رہنمائوں میں ہوتا ہے جو اپنے مزاج کے لحاظ سے’’بے ضرر‘‘ لیکن نتائج کی پروا کئے بغیر اپنے اصولی مؤقف پر ڈٹ جانے والے ہیں‘ دراز قد مسکراتا چہرہ ملنسار طبیعت ان کا خاصہ ہے ذاتی پبلسٹی کو سخت ناپسند کرنے والی شخصیت نے پچھلے 8ماہ کے دوران میدان سیاست میں ’’چوکے چھکے ‘‘ لگا کر سیاسی مخالفین کے ’’چھکے ‘‘ چھڑا دئیے میں نے ان کو کبھی ’’جلالی ‘‘ کیفیت میں نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب ان پر راولپنڈی کے ’’جوتشی‘‘ نے ایل این جی کے حوالے سے کرپشن کے الزامات عائد کئے تو انہوں نے مشتعل ہونے کی بجائے ایل این جی پر مناظرے کا چیلنج دے دیا جو تاحال نجومی نے قبول نہیں کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو8ماہ ہو گئے ہیں ان کی حکومت کے دو ماہ سے کم دن رہ گئے ہیں لیکن صبح شام کام کرنے کی عادت ترک نہیں کی ۔ 31 مئی 2018ء کی شب ان کی حکومت خود بخود تحلیل ہو جائے گی اور یکم جون 2018ء کو نگران حکومت آجائے گی۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت کا’’ چل چلائو ‘‘ ہے پچھلے پانچ سال کے دوران ’’کپتان ‘‘ ہر سال کو انتخابات کا سال قرار دیتے دیتے تھک گئے ہیں بالآخر انہوں بھی تسلیم کر لیا ہے 2018ء ہی انتخابات کا سال ہے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی نوازشریف حکومت کے مکمل ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرتے کرتے تھک گئے ہیں ایک انہوں نے اپنے قائد محمد نواز سے یہ بات کہی ’’ میاں صاحب !آپ کے دور میں شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر انہیں ہر روز کسی نہ کسی منصوبے کے افتتاح کے لئے جانا پڑتا ہے ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے جہاں نواز شریف کے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں وہاں وہ تیز رفتاری سے کام کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کا اپنے جانشین کا انتخاب صحیح تھا ۔ کم و بیش 30سال قبل ہوا باز شاہدخاقان عباسی نے اپنے والد محترم ایئر کموڈورخاقان عباسی کی سانحہ اوجڑی کیمپ میں شہادت کے بعد مجبوراً سیاست کی پر خار وادی میں قدم رکھا تھا، امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد میدان سیاست میں قدم رکھنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن والد کی شہادت سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا ء کو پر کرنے کے لئے سیاست کی پر خار وادی میں دھکیل دیا گیا30سال قبل کسی کو کیا علم تھا میدان سیاست کے اس کھلاڑی کے سر پر اقتدار کا ’’ہما‘‘ جا بیٹھے گا۔ کوہسار مری کے ’’باسی‘‘ کو اس وقت وزیر اعظم کے منصب پر بٹھایا گیا جب اس کے قائد میاں نواز شریف کو ’’ناکردہ گناہوں ‘‘ کے جرم میں ’’نا اہل ‘‘قرار دے دیا گیا ۔45روز کے لئے بننے والا وزیر اعظم موجودہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے تک وزیر اعظم رہے گا ۔ جب اگست 2017ء کے اوائل میں شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اس وقت غیر یقینی صورت حال تھی، سیاسی مخالفین ان کی حکومت کے دن گن رہے تھے لیکن آج شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو8ماہ ہونے والے ہیں ان کی شاندار کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے وہ علی الصبح اپنے دفتر میں جا بیٹھتے ہیں اور رات گئے تک کام کرتے ہیں ان کی حکومت کے خلاف طرح طرح کی پیش گوئیاں کرنے والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ناز نخروں سے بے نیاز شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمی ٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا یہ حکم جاری کیا کہ ان کی سرگرمیوں کی کوریج سرکاری میڈیا تک محدود رکھی جائے اس طرح پہلے دن سے انہوں نے ’’ہیلی کاپٹر‘‘ گروپ کا بوجھ اتار دیا انہوں نے پچھلے 8ماہ کے دوران بہت کم اخبار نویسوں کو انٹرویوز دئیے ہیں میاں نوازشریف نے اپنے4 سالہ دور حکومت میں وزیر اعظم ہائوس میں اخبار نویسوں سے ایک ملاقات نہیں کی تاہم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے چند اخبارنویسوں سے گروپوں کی صورت میں ملاقاتیں کی ہیں اب تک انہوں نے صرف ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے سے دو ماہ قبل ملک میں ٹیکس نظام کو آسان بنانے، ٹیکس چوری روکنے اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لئے اقتصادی اصلاحات پیکیج کے تحت پانچ نکاتی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا۔ ایمنسٹی سکیم کا اعلان کرنے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو چند ماہ لگ گئے انہوں نے دعویٰ کیاہے کہ اس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچے گا‘ لیکن اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پیش پیش ہیں نے ایمنسٹی سکیم کو مسترد کر دیا ہے اور اسے ’’کالا دھن‘‘ کو’’ سفید ‘‘کرنے کی سکیم قرار دیا ہے قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایمنسٹی سکیم کے اجراء کی مذمت کی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے میاں نواز شریف کے حوالے سے پریس کانفرنس میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ’’ نواز شریف ان کے قائد ہیں، اس حوالے سے کافی لوگوں کو تکلیف ہے، میں نے ان کو چار مرتبہ ووٹ دیا ہے تاہم جب سے میں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کبھی مجھے فون کیا ہے اور نہ ہی کوئی ہدایات دی ہیں، مجھے جو اختیارات حاصل ہیں، میں وہ استعمال بھی کروں گا، اس لئے جن لوگوں نے ذہن میں خوامخواہ کوئی بات بٹھارکھی ہے ان کو یہ ذہن سے نکال دینی چاہیے۔ جب ان سے ایک اخبار نویس نے مری میں گیس کی فراہمی سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے دھڑلے سے جواب دیا کہ اگر آپ کے گھر گیس ہے تو مری کے باسی کو اس سے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے ۔ جب سے ملکی معیشت کے’’ معمار‘‘ سینیٹر اسحق ڈار کو ’’دیس نکالا‘‘ ملا ہے ملکی معیشت زوال کی طرف جارہی ہے پاکستان کی کرنسی کی قیمت دن بدن گر رہی ہے لیکن کوئی بھی حکومتی عہدیدار ملکی معیشت کے روبہ زوال ہونے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اسے وقت کا ’’ جبر ‘‘کہیں یا کچھ اور ۔ آج وہ لوگ پاکستان کی معیشت کے بال وپر درست کر رہے ہیں جن کی سینیٹر محمد اسحق ڈار کی موجودگی میں کوئی پوزیشن نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’پارٹی کے صدر میاں نواز شریف کے حکم پر ان کی خالی کی ہوئی کرسی پر اس وقت تک بیٹھا رہوں گا جب تک وہ چاہیں گے سو انہوں نے وزارت عظمیٰ پر بیٹھنے کا حق ادا کر دیا وزیر اعظم نے سینیٹ کے انتخابات بارے میں ایک پوزیشن اختیار کر رکھی ہے اور وہ اس پوزیشن سے ایک قدم پیچھے ہٹنے والے نہیں ۔ سینیٹ انتخابات سے متعلق بیان پرسوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ انہوں نے بہت سیدھی بات کی ہے کہ جو لوگ ووٹ خرید کر سینٹ میں آئے ہیں ،کیا اس سے ایوان اور جمہوریت کے وقار میں اضافہ ہوا ؟ جو لوگ منتخب ہوئے ہیں وہ یہ بیان حلفی دیں کہ انہوں نے ووٹ نہیں خریدے اور پیسے کا استعمال نہیں کیا؟ میں نے تو سینیٹ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کا معاملہ عوام کی عدالت میں پیش کر دیا ہے۔ انہوں یہ بھی کہا ہے کہ چیئرمین سینیٹ مجھے طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، جو لوگ ووٹوں کی خرید و فروخت کا دفاع کر رہے ہیں، ان کو وضاحت کرنی چاہیے، عمران خان بتائیں کہ ان کے 14 ایم پی اے فروخت ہوئے ہیں یا نہیں، اگر میرے بیان سے کسی کا استحقاق مجروح ہوا ہے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں جب انہوں نے سینیٹ کے انتخابات میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ پر پوزیشن لی تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو چیئرمین سینیٹ کا استحقا ق یاد آگیا شاہد خاقان عباسی ’’دبنگ ‘‘سیاست دان ہیں جب ان سے پریس کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں کہا کہ ’’ مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ کوئی میرے خلاف استحقاق کی تحریک لاتا ہے یا کچھ اور ۔ اگر چیئرمین سینیٹ ایوان میں حلفیہ یہ بیان دے دیں کہ ان کے انتخاب میں کوئی پیسہ استعمال نہیں ہوا تو معاملہ ختم ہو جائے گا ۔ انہوں نے یہ بات بھی کہی ہے ’’میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ’’خطرناک‘‘ وزیراعظم ہوں کچھ بھی کہہ اور کر سکتا ہوں ‘‘ تاہم انہوں نے خطرناک وزیر اعظم کی وضاحت نہیں کی۔ دراز قد ،مسکراتا چہرہ شاہد خاقان عباسی کی پہچان ہے درویش صفت ،سیاسی فہم و فراست اور شرافت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے عسکری پس منظر رکھنے والے شاہد خاقان عباسی نے جہاں سول و ملٹری تعلقات بہتر بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے وہاں انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کا جرات مندانہ اقدام اٹھایا ان پر ’’فریادی ‘‘ کے آوازے کسے گئے تو انہوں نے دھڑلے سے کہا کہ ’’ہاں میں فریادی بن کر گیا ہوں لیکن کسی کی ذات کے لئے نہیں پاکستان کا فریادی بن کر گیا ہوں۔ وزیر اعظم عباسی سیاسی مخالفین کی بائولنگ پر ’’چوکے چھکے‘‘ لگا رہے ہیں ۔میاں نواز شریف نے جس شخص کو اپنی کرسی پر بٹھایا ہے اس کی شاندار کارکردگی نے ان کے انتخاب پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ’’چوکے چھکے‘‘
Apr 09, 2018