بہت اچھے دوست اور کرنٹ آفیئرز کے سابق مایہ ناز پرڈیوسر افتخار مجاز بھی چل بسے۔ موصوف سے یاد اللہ تو ٹی وی پروگراموں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے تھی مگر جب معلوم ہوا کہ وہ اعزاز احمد آذر کے برادرِ خورد ہیں تو دل کو اور تسلی ہوئی اور ملاقات میں تپاک بھی بڑھ گیا۔ ہم اعزاز احمد آذر (مرحوم) کی خیریت بھی انہیں سے دریافت کیا کرتے تھے۔ موصوف کو یعنی افتخار مجاز جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے بھی دل کو کچھ ہوتاہے کمال کے جملے باز تھے اور ہر اچھے جملے پر بے ساختہ داد دینے کے حوالے سے بھی معروف تھے۔ ان کی اسی حسّ نے ایک یادگار پرگروام کی ریکارڈنگ کرائی جو PTV سے چلا اور میرا نہیں خیال کہ اس میں سے ایک بھی جملہ حذف کیا گیا ہو۔ اس میں شہر کے نامور جملے باز اکٹھے گئے تھے اور انہوں نے جو بھی کہا وہ اسی طرح چلا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ ساری ذمہ داری افتخار مجاز نے اٹھائی تھی کیونکہ انہوں نے پروگرام کی دعوت دیتے ہوئے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ جو کچھ کہیں گے وہ اسی ریفرنس اور انہیں الفاظ میں چلے گا۔ اس پروگرام میں عطاء الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، طارق عزیز، راقم الحروف اور ایک دو اور لوگ شامل تھے۔ اس سے آپ اس پروگرام کی ٹون کا اندازہ کر سکتے ہیں اور افتخار مجاز کی ذمہ داری کا بھی مگر کسی ایک نے بھی کوئی ایسا جملہ نہ کہا جس پر ان کی قینچی کا کوئی ڈر ہو۔ آج بھی PTVکی لائبریری میں یہ پروگرام موجود ہوگا۔ (جن لوگوں کے نام مجھے یاد نہیں ان سے پیشگی معذرت)!!
اب تو لوگوں کی رخصتی کی اطلاع بھی فیس بُک پر ملتی ہے کیونکہ فاصلوں میں اضافے کے باعث روز روز ملنے کی امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ افتخار مجاز کی رخصتی کی اطلاع بھی ہمیں فیس بُک سے ملی۔ بُک ہوم کے رانا عبدالرحمن نے جو فیس بک کے باقاعدہ ’’ایکٹوممبر‘‘ہیں نے اس کی تصدیق کی۔ذہن میں افتخار مجاز سے ملاقاتوں کی فلم سی چلنی شروع ہو گئی اور ساتھ ہی وقت کے ساتھ ساتھ ان کے حلیے میں تبدیلی بھی ظاہر ہوتی تھی۔ آخری ملاقاتوں میں ان کی سفید داڑھی جو بڑی تراش خراش کے بعد انہوں نے بڑھا لی تھی ان کے چہرے پر بہت جچی تو میں نے ان سے ایک دن کہا کہ اندر سے تو آپ بہت پہلے سے بزرگ تھے اب باہر سے بھی لگنے لگتے ہیں۔ اس جملے کو انہوں نے بہت انجوائے کیا اور افسوس سے کہنے لگے کہ اب تو پرانے دوست بھی نہیں ملتے جو اس طرح کی ’’بزرگی‘‘ سے شناسائی رکھتے تھے۔
اس طرح کی کمیوں اور دکھ کے ساتھ ساتھ زندگی ویسے بھی اپنی ڈگر پر چل رہی ہے ۔ کچھ دن پہلے ہمارے ایک دوست (جو چالیس سالہ دوستی کے دعوے دار ہیں) برمنگھم سے تشریف لائے تو مشترکہ دوستوں نے دعوتوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ جو ان کی بیگم رضیہ اسماعیل (جو صاحبہ کلیات شاعرہ ہیں اور پوپ کہانیوں کے حوالے سے اہم نام ہیں) کے اس جملے سے تشریح پاتاہے کہ جب ان کی کتب شائع ہوئیں تو شہر میں اتنی زیادہ تقریبات منعقد ہوئیں کہ ایک گلوکارہ ادیبہ نے اس پر یوں کمنٹ کیا کہ یہ ’’یومِ رضیہ اسماعیل‘‘ منانے کا سلسلہ کب ختم ہوگا تو اسماعیل اعظم کے اعزاز میں ان کے دوستوں شرجیل انظر، راجہ صادق اللہ، اعجاز کنور راجہ اور راقم الحروف نے اس سلسلے کو اسماعیل اعظم کے ایئرپورٹ جانے کے بعد ہی ختم کیا۔ یہ سپورٹس اور ادب کا باقاعدہ اجتماع تھا جس میں 70کی دہائی کے ادیب اور سپورٹس مین شرکت کرتے تھے اور پرانی یادیں تازہ کرتے تھے کہ ستر کی دہائی فنون میں اشتراک کی دہائی تھی اور ہر فیلڈ میں آگے کے چند نام باہمی رابطوں میں رہتے تھے۔ باہمی رابطوں کے حوالے سے ہی ایک تقریب باغِ جناح میں ادیبوں کی اور دانشوروں کی فروٹ پارٹی تھی جس کا اہتمام نوازکھرل ،امجد طفیل، آفتاب جاوید(گیان والے) اور جمیل نے کیا تھا۔ اس میں ایک عجیب و غریب شرط تھی کہ کوئی ادیب یا دانشور یا شاعر اپنا کلام پیش نہیں کرے گا۔ سب مل کر گپ شپ لگائیں گے ،لطیفے سنائیں گے اور گانے گائیں گے چنانچہ مولانا اجمل نیازی کی بلحاظ سنیارٹی صدارت نے اس محفل کو دانشوروں اور شاعروں کی محفل بنائے رکھا لیکن گانے والوں کا پلڑا بھاری رہا۔ افضل عاجز اور نیلم احمد بشیر نے بحیثیت گلوکارہ اور دانشور بھی اپنا کردار ادا کیا اور دونوں شعبوں میں بہت داد سمیٹی ۔ ایک اور سینئر شاعر نذیر قیصر اور ان کی مسز حاضری لگوا کر چلے گئے کیونکہ جالب ڈے بھی منایا جا رہا تھا اور وہاں کے مشاعرے کی صدارت نذیر قیصر نے کرنی تھی۔ ان کے ساتھ ہی مشاعرہ پسند شاعر بھی ایک ایک امردود کھا کر چلے گئے جب کہ باقی فروٹ پر گانے جملوں اور لطیفوں قبضہ ہو گیا جس کو افتخار بخاری نے کاسموپلٹن کلب میں چائے کی دعوت دے کر ختم کیا۔ چنانچہ یہ دعوت فروٹ پارٹی سے اچھی چائے کی دعوت میں تبدیل ہو گئی۔
زندگی کے دُکھ سُکھ
Apr 09, 2019