دعوت شیراز

Apr 09, 2020

سینیٹر رحمان ملک

حسین شیرازی کی پہلی کتاب"بابو نگر'' کی بے مثال کامیابی کے بعد اب انہوں نے اپنی دوسری کتاب "دعوت شیراز" کے نام سے ترتیب دی ہے اوراسے پڑھنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ یہ کتاب سابق بیوروکریٹ حسین احمد شیرازی کی حقیقی زندگی کا عکاس ہے۔ حسین شیرازی کے ساتھ میری بہت پرانی وابستگی رہی ہے ، وہ اسلام آباد میں بطور اسسٹنٹ کلکٹرز آف کسٹمز اور میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر امیگریشن ڈیپارٹمنٹ تعینات کیا گیا تھا۔ جہاں ہم دونوں نے ایک ساتھ اپنی سرکاری ملازمت کا آغاز کیا تھا۔ وہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے اور میں ہمیشہ سے ان کے اعلیٰ اخلاق اور میزبانی کا قائل رہا ہوں ، ان کی دعوت شیراز سمیت وہ (بابو)اور دوستوں میں بے حد مشہوراور دوست نواز تھے ۔ میری ان سے آخری دفعہ ملاقات اسلام آباد میں ہوئی تھی جہاں انہوں نے میری کتاب doctrine Modi's War کے حوالے سے تبصرہ پیش کیا تھا۔ زندگی سے بھرپور مسکراتا چہرہ لیے وہ آج بھی وہی پرانے حسین شیرازی تھے۔
ہم اپنی اپنی زندگی میں کامیابیوں کے زینے چڑھتے رہے ایک ایسے شہر میں جہاں قبریں بھی آپ کو آپ کے منصب اور رتبے کے حساب سے ملتی ہیں۔یہ شہر منافق جہاں دوستیاں بھی رتبے اور برابری کی سطح پر تولی جاتی ہیں۔مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس شہر میں رہنے کے باوجود ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب رہے۔ پرجوش طبیعت کا مالک حسین شیرازی میری ہی طرح دیہی پس منظر سے تعلق رکھتا تھا اور ہم دونوں ہی سیالکوٹ سے تھے۔ایک حادثے میں اپنے جوان سالہ شادی شدہ بھائی کی موت کا غم لیے اس ہنستے مسکراتے چہرے کے پیچھے کتنا کرب اور درد چھپا تھا یہ صرف ہم دوست ہی جانتے تھے کہ حسین شیرازی کتنی اپنے بھائی سے محبت کرتا تھا۔خوش مزاج طبیعت کے حامل حسین شیرازی کے دوست احباب ہی کیا اس کے آس پاس رہنے والے سب ہی اس کے مداح رہے ہیں۔ یہ بہت نا انصافی ہوگی اگر میں یہاںوہ قصہ نہ بیان کروں کہ جب میں اڈیالہ جیل میں تھا اور دوسری دفعہ ہماری گورنمنٹ کا تختہ الٹا گیا تھا۔ ایسے کڑے وقت میں حسین ہی تھا جس کی مدد اور حوصلہ میرے ساتھ تھا۔ اس وقت چند دوست تھے جو حق دوستی نبھاتے اور بنا ڈرے مجھ سے ملنے آتے تھے ا ور حسین ان میں سے ایک تھا۔میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مزاح لکھنا آسان نہیں ہوتا خاص طور پرکسی نقص یا خرابی کو ہلکے پھلے انداز میں سامنے لاکرپیش کرنا بالکل آسان نہیں ہے۔ مزاح سے بھرپور یہ کتاب اس کی فہم و فراست، قابلیت اور صلاحیت کی مظہر ہے۔
دعوت شیراز ہمارے معاشرے کے مضحکہ خیز ابہام کو واضح کرتی ہے۔ حسین صاحب نے ہلکے پھلکے مگر مضبوط انداز میں معاشرتی منافقت کوبے نقاب کرکے یقینا ًایک احسن کام سرانجام دیا ہے۔یہ کتاب ہماری روزمرہ کی زندگی کی امنگوں، حوصلوں، خواہشوں، خوابوں، رشتوں اور ہمارے خمیر میں گندھے جھوٹ کو واضح کرتی ہے۔ اس کتاب میں ایک پیغام ہے جو ہمیں تلقین کرتا ہے کہ کس طرح سے ہم اور ہماری آنے والی نسلیں کیسے اپنی زندگی میں بہتری لا سکتے ہیں۔دعوت شیراز میں مصنف نے خود اپنی زندگی کی چند مثالیں پیش کی ہیں کہ جو ان کی زندگی کاعکاس ہیں اور یہی اس نے بتایا ہے کہ ان باتوں پر عمل کر کے آپ کیسے اپنی زندگی بدل سکتے ہیں۔
بچپن کا ساون کے دلچسپ اقتباسوں میں سے ایک‘(صفحہ 178) پر موصوف لکھتے ہیں کہ کیسے دوسروں میں خوشیاں بانٹ کر اور انکی مدد کرکے ہم خوش رہ سکتے ہیں۔یہ ایک سچی حقیقت ہے جو زندگی کے اصل مقصد کا احساس دلاتی ہے۔اور یہی وہ بات ہے جو میں نے شروع میں بھی بیان کی تھی کہ وہ ایک سچا اور وفادار ساتھی اپنے دوستوں کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔دوستی اور غبارے۔ اپنے اس مضمون میں لکھاری نے زندگی میں دوستی کی اہمیت کو بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے۔اتنی خوبصورتی سے آج کل کی دوستی کے پیچھے چھپی منافقت کے زہر کو عیاں کیا ہے جہاں دوستوں کو صرف وقت پڑنے پر استعمال کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اچھے دوستوں کا ملنا مشکل ہے لیکن اگر وہ مل جائیں تو ان کا ہاتھ ہمیشہ تھام کر رکھنا چاہیے۔ اسی وجہ سے حسین شیرازی نے اپنی یہ کتاب اپنے قریبی دوستوں کے نام منسوب کی ہے۔ حسین صاحب ایک تاریخی شخصیت کے حامل شخص ہیں جنہوں نے اپنی سچائی اور دیانت داری سے بے شمار کامیابیاں سمیٹیں اور بہت عزت کمائی اور میرے لیے یہ ایک فخرکی بات ہے کہ عطا اللہ قاسمی بھی انکے مداحوں میں شامل ہیں۔ عطاالحق قاسمی صاحب ایک ورسٹائل خصوصیات کے مالک مصنف ہیں اور میں ان سے دور جلا وطنی میں ملا تھا جب وہ ناروے میں بطور ایمبیسڈر تعینات تھے اور میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ وہاں گیا تھا۔ میں نے ان کو ایک عظیم نظریاتی شخص کے طور پرجانا اور کبھی کبھی جب میں دو عظیم لوگوں کی ایک ساتھ بیٹھے کوئی جھلک دیکھتا ہوں تو مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔
مقصدیت سے پھرپور اس کتاب میں پڑھنے والوں کے لیے مثبت پیغام ہے جس کے ذریعے آپ زندگی کی تمام رکاوٹوں اور منافقتوں سے مبرا ہو کر اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ یہ ہی کامیابی کی سمت جانے والا واحد راستہ ہے۔ دراصل ہم ایک ملک کے رہنے والے ایک قوم اور ایک سوچ نہیں بن سکے۔بحیثیت قوم ہم ایک اجتماعی نقطہ نظر نہیں رکھتے اور ہم سیاست دان ملک کواپنی یکطرفہ سوچ کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ سیاست سے بڑھ کر ہمیں کچھ نہیں سوجھتا کیوں کہ Babusکو آئینی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ فائلوں میں چھپی قوم کی تقدیر سے خوفزدہ رہتے ہیں اورعدم تحفظ کا یہ ماحول درحقیقت بابو کی کارکردگی کو کھوکھلا کر رہا ہے بالکل اسی طرح جیسے حسین نے اپنی کتاب میں یہ تصوراتی منظر پیش کیا ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ حسین آئندہ بھی اسی لگن اور شوق کے ساتھ کتاب لکھے گا جس طرح کچھ Babus (بابو)اور سیاستدان ہماری پھسلتی ہوئی معیشت کو اس خطرناک صورتحال تک لے آئے ہیں۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ آپ کو کامیابی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں اور مضبوط ارادوں کے ساتھ یوں ہی اپنے منفرد انداز میں ہمارے ملک کے ان تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کرتے رہیں۔

مزیدخبریں